۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ امراض تشخیص ومزاج ۔۔۔۔۔۔۔۔قسط نمبر8۔۔
پچھلی پوسٹ مین ایک عجیب سا سوال کسی نے کررکھا تھا کہ کسی خلط کے بڑھ جانے سے ھی مرض پیدا ھوتی ھے تو کیسے پتا چلے کہ کونسی خلط بڑھ گئی ھے ایک اور عقلمند نے اخلاق سے ھٹ کر اس کے نیچے کمنٹس دے رکھے تھےجس کا ترجمہ یہ ھے کہ بڑے بڑے حکیمون کا اس سوال پہ منہ بند ھو جاتا ھے مجھے بڑی ھنسی آئی کہ اس سوال پہ تو کسی چھوٹے سے چھوٹے بھی حکیم کا منہ بند نہین ھوتا پہلے کمنٹس پہ ایک لطیفہ یاد آیا جب ایک پٹھان ساری رات ھیر وارث شاہ سننے پہ بہت آزردہ نظر آیا تو کسی نے پوچھا خان صاحب کیا ھوا ؟ خان صاحب فرمانے لگے بھئی ان دونون بہن بھائی کا داستان بہت درد ناک ھے ۔۔بہت سے دوستون سے معذرت۔۔۔ اب بات بھی سمجھ لین اس مضمون کا مقصد ایک یہ بھی ھے کہ جو خلط بڑھی ھے اس کی پہچان کیسے ھو اگر اس کی پہچان ھو گئی تو مرض پہچاننا آسان ھو جاتا ھے اب ایک چھوٹے سے بھی حکیم کو اس بات کا علم ھوتا ھے کسی بھی خلط کے بڑھنے یا کمی ھونے سے مرض پیدا ھوتی ھے اعتدال صحت کی علامت ھے اگر مضمون غور سے پڑھا ھوتا تو یہی کچھ تو زیر بحث ھے خیر اب ھم اپنے مضمون کی طرف چلتے ھین بات کررھے تھے رنگون سے مزاج کی پہچان کیسے کی جاتی ھے جس مین دموی مزاج پہ پچھلی قسط مین لکھ چکا ھون اب آتے ھین صفراوی مزاج کی طرف
زرد رنگ صفرا کی پہچان ھے صفرا کی زیادتی اور جگر و غدد کے فعل مین تیزی کو ظاھر کرتا ھے
اب سفید رنگ بلغم کی کثرت اور دماغ اعصاب کی تیزی کو ظاھر کرتا ھے
اسی طرح سیاہ رنگ سوداویت کی تیزی اور غدد جاذبہ کے فعل و اثرات کو نمایان کرتا ھے
جب ان رنگون کا علم ھو گیا کہ اگر یہ رنگ جسم پہ ظاھر ھون تو فلان مادہ مین تیزی ھے تو اگلا سوال یہ پیدا ھوتا ھے یہ رنگ پیدا کہان ھوتے ھین اور صاف کہان ھوتے ھین یعنی کس اعضاء مین یہ پیدا ھوتے ھین یعنی اخلاط پیدا ھوتے ھین صاف بھی ھوتے ھین اور اخراج کیسے پاتے ھین یہ سب سوال بہت اھم ھین اور یہ بات بھی ذھن مین لازمی آتی ھے اب ان رنگون سے ایک طرف خون کی کیمیائی حالت سمجھ آتی ھے تو دوسری طرف ان اعضاء کی طرف بھی اشارہ واضح ھوتا ھے جن کی حالت غیر طبعی ھونے سے ان مین اخلاط کی کمی بیشی سے یہ رنگ پیدا ھوتے ھین ۔۔اب ان دونون صورتون کو سامنے رکھ کر ذھن مین مرض کا خیال ابھرتا ھے اب چہرے اور باقی جسم کی علامات دیکھنے کے بعد اس کے یقین کی حد تک مرض کی پہچان ھو جاتی ھے لیکن ایک بات یاد رکھین جب کسی ایک رنگ کو دیکھنے کے بعد اس کے متعلقہ عضو کی طرف توجہ جاۓ تو ساتھ ھی دیگر اخلاط اور ان کے اعضاء کی کمی بیشی اور ان کے افعال کو بھی لازما مد نظر رکھ لینا چاھیے کسی بھی مرض کا فتوہ لگانے سے پہلے انکی حالت کو لازما مدنظر رکھنا ضروری ھے
٢۔ ھیئت۔۔۔۔ اس سے مراد چہرے اور جسم کا دبلا پن یا موٹا ھونا اور اس مین کمی بیشی یا جسم مین رطوبت کی زیادتی یا اعصاب کے فعل مین تیزی کی علامت کو سامنے رکھ کر اس مین عصبی امراض کو مد نظر رکھنا شامل ھے
اگر چہرہ خوش رنگ ھے چمک دار ھے اور اس مین کساد ھو تو یقینی بات ھے کہ چربی کی زیادتی ھے
اگر چہرہ پھیکا ھو دھبے ھون یا ڈھیلا پن ھو تو پانی کی کثرت ھے
اگر جسم مین گوشت کی زیادتی تو جگر اور گردون کے فعل مین تیزی ھے
اگر چہرے پہ تازگی اور چمک ھو تو جگر مین تیزی اور حرارت مین زیادتی ھے
اگر چہرہ مرجھایا ھوا ھو اس پہ داغ دھبے ھون تو گردون کے فعل مین تیزی ھے
نوٹ۔۔ ایک بات جسے مین نے بہت آگے چل کے لکھنا تھا درمیان مین ھی لکھنے کو جی چاھا یہ بات بھی اچھی طرح نوٹ کر لین
کہ اگر ناک پہ سیاھی مائل پیلاھٹ لیے مردنی سے آگئی ھو جس مین ناک پہ بڑی خشکی بھی نظر آتی ھے تو فتوہ لگا دین گردے بالکل سکڑ گئے ھین مریض شدید بلڈ یوریا اور کریاٹی نین کا شکار ھو چکا ھے یہ اس لئے لکھا ھے کہ یہ مرض بہت ھی عام ھو چکی ھے اور مریض پہ یہ نشانی بہت عرصہ پہلے ظاھر ھو جایا کرتی ھے اور مریض کو اپنی مرض کا علم بھی نہین ھوتا اگر اس وقت آپ متعلقہ ٹیسٹ کروائین گے تو فورا یہ مرض تشخیص ھو جاۓ گی اور علاج کیا جا سکتا ھے اور سو فیصد مریض تندرست ھوجایا کرتے ھین اب آگے چلتے ھین
اگر چہرہ اندر کی طرف پچکا ھوا ھے اور جسم دبلا پتلا ھے تو دل کے فعل مین تیزی ھے اگر ساتھ چہرہ پہ تازگی ھے تو خون کی پیدائش ھے
اگر چہرہ پہ چھائیان اور داغ ھون تو سوداوی مادہ کی زیادتی ھے اس مین لازما معدہ اور طحال کو مدنظر رکھین
اب بات کرتے ھین ظاھری علامات کی
اب ظاھری علامات بے ھوش مریض نشے مین مدھوش مریض یا بچون مین یا نیند کی حالت مین زیادہ کام آتی ھین اس کے علاوہ دیگر مریضون پہ بھی اسی طرح کام آتی ھین
ظاھری علامات مین انسان کے قد کی لمبائی یا پستی جسم کی ساخت بالون کا زیادہ یا کم ھونا سر آنکھ کان ناک ھونٹ ھاتھ پاؤن کی بناوٹ ۔۔ باقی مضمون اگلی قسط مین
۔۔۔۔ امراض تشخیص ومزاج ۔۔۔۔۔۔۔۔قسط نمبر8۔۔
پچھلی پوسٹ مین ایک عجیب سا سوال کسی نے کررکھا تھا کہ کسی خلط کے بڑھ جانے سے ھی مرض پیدا ھوتی ھے تو کیسے پتا چلے کہ کونسی خلط بڑھ گئی ھے ایک اور عقلمند نے اخلاق سے ھٹ کر اس کے نیچے کمنٹس دے رکھے تھےجس کا ترجمہ یہ ھے کہ بڑے بڑے حکیمون کا اس سوال پہ منہ بند ھو جاتا ھے مجھے بڑی ھنسی آئی کہ اس سوال پہ تو کسی چھوٹے سے چھوٹے بھی حکیم کا منہ بند نہین ھوتا پہلے کمنٹس پہ ایک لطیفہ یاد آیا جب ایک پٹھان ساری رات ھیر وارث شاہ سننے پہ بہت آزردہ نظر آیا تو کسی نے پوچھا خان صاحب کیا ھوا ؟ خان صاحب فرمانے لگے بھئی ان دونون بہن بھائی کا داستان بہت درد ناک ھے ۔۔بہت سے دوستون سے معذرت۔۔۔ اب بات بھی سمجھ لین اس مضمون کا مقصد ایک یہ بھی ھے کہ جو خلط بڑھی ھے اس کی پہچان کیسے ھو اگر اس کی پہچان ھو گئی تو مرض پہچاننا آسان ھو جاتا ھے اب ایک چھوٹے سے بھی حکیم کو اس بات کا علم ھوتا ھے کسی بھی خلط کے بڑھنے یا کمی ھونے سے مرض پیدا ھوتی ھے اعتدال صحت کی علامت ھے اگر مضمون غور سے پڑھا ھوتا تو یہی کچھ تو زیر بحث ھے خیر اب ھم اپنے مضمون کی طرف چلتے ھین بات کررھے تھے رنگون سے مزاج کی پہچان کیسے کی جاتی ھے جس مین دموی مزاج پہ پچھلی قسط مین لکھ چکا ھون اب آتے ھین صفراوی مزاج کی طرف
زرد رنگ صفرا کی پہچان ھے صفرا کی زیادتی اور جگر و غدد کے فعل مین تیزی کو ظاھر کرتا ھے
اب سفید رنگ بلغم کی کثرت اور دماغ اعصاب کی تیزی کو ظاھر کرتا ھے
اسی طرح سیاہ رنگ سوداویت کی تیزی اور غدد جاذبہ کے فعل و اثرات کو نمایان کرتا ھے
جب ان رنگون کا علم ھو گیا کہ اگر یہ رنگ جسم پہ ظاھر ھون تو فلان مادہ مین تیزی ھے تو اگلا سوال یہ پیدا ھوتا ھے یہ رنگ پیدا کہان ھوتے ھین اور صاف کہان ھوتے ھین یعنی کس اعضاء مین یہ پیدا ھوتے ھین یعنی اخلاط پیدا ھوتے ھین صاف بھی ھوتے ھین اور اخراج کیسے پاتے ھین یہ سب سوال بہت اھم ھین اور یہ بات بھی ذھن مین لازمی آتی ھے اب ان رنگون سے ایک طرف خون کی کیمیائی حالت سمجھ آتی ھے تو دوسری طرف ان اعضاء کی طرف بھی اشارہ واضح ھوتا ھے جن کی حالت غیر طبعی ھونے سے ان مین اخلاط کی کمی بیشی سے یہ رنگ پیدا ھوتے ھین ۔۔اب ان دونون صورتون کو سامنے رکھ کر ذھن مین مرض کا خیال ابھرتا ھے اب چہرے اور باقی جسم کی علامات دیکھنے کے بعد اس کے یقین کی حد تک مرض کی پہچان ھو جاتی ھے لیکن ایک بات یاد رکھین جب کسی ایک رنگ کو دیکھنے کے بعد اس کے متعلقہ عضو کی طرف توجہ جاۓ تو ساتھ ھی دیگر اخلاط اور ان کے اعضاء کی کمی بیشی اور ان کے افعال کو بھی لازما مد نظر رکھ لینا چاھیے کسی بھی مرض کا فتوہ لگانے سے پہلے انکی حالت کو لازما مدنظر رکھنا ضروری ھے
٢۔ ھیئت۔۔۔۔ اس سے مراد چہرے اور جسم کا دبلا پن یا موٹا ھونا اور اس مین کمی بیشی یا جسم مین رطوبت کی زیادتی یا اعصاب کے فعل مین تیزی کی علامت کو سامنے رکھ کر اس مین عصبی امراض کو مد نظر رکھنا شامل ھے
اگر چہرہ خوش رنگ ھے چمک دار ھے اور اس مین کساد ھو تو یقینی بات ھے کہ چربی کی زیادتی ھے
اگر چہرہ پھیکا ھو دھبے ھون یا ڈھیلا پن ھو تو پانی کی کثرت ھے
اگر جسم مین گوشت کی زیادتی تو جگر اور گردون کے فعل مین تیزی ھے
اگر چہرے پہ تازگی اور چمک ھو تو جگر مین تیزی اور حرارت مین زیادتی ھے
اگر چہرہ مرجھایا ھوا ھو اس پہ داغ دھبے ھون تو گردون کے فعل مین تیزی ھے
نوٹ۔۔ ایک بات جسے مین نے بہت آگے چل کے لکھنا تھا درمیان مین ھی لکھنے کو جی چاھا یہ بات بھی اچھی طرح نوٹ کر لین
کہ اگر ناک پہ سیاھی مائل پیلاھٹ لیے مردنی سے آگئی ھو جس مین ناک پہ بڑی خشکی بھی نظر آتی ھے تو فتوہ لگا دین گردے بالکل سکڑ گئے ھین مریض شدید بلڈ یوریا اور کریاٹی نین کا شکار ھو چکا ھے یہ اس لئے لکھا ھے کہ یہ مرض بہت ھی عام ھو چکی ھے اور مریض پہ یہ نشانی بہت عرصہ پہلے ظاھر ھو جایا کرتی ھے اور مریض کو اپنی مرض کا علم بھی نہین ھوتا اگر اس وقت آپ متعلقہ ٹیسٹ کروائین گے تو فورا یہ مرض تشخیص ھو جاۓ گی اور علاج کیا جا سکتا ھے اور سو فیصد مریض تندرست ھوجایا کرتے ھین اب آگے چلتے ھین
اگر چہرہ اندر کی طرف پچکا ھوا ھے اور جسم دبلا پتلا ھے تو دل کے فعل مین تیزی ھے اگر ساتھ چہرہ پہ تازگی ھے تو خون کی پیدائش ھے
اگر چہرہ پہ چھائیان اور داغ ھون تو سوداوی مادہ کی زیادتی ھے اس مین لازما معدہ اور طحال کو مدنظر رکھین
اب بات کرتے ھین ظاھری علامات کی
اب ظاھری علامات بے ھوش مریض نشے مین مدھوش مریض یا بچون مین یا نیند کی حالت مین زیادہ کام آتی ھین اس کے علاوہ دیگر مریضون پہ بھی اسی طرح کام آتی ھین
ظاھری علامات مین انسان کے قد کی لمبائی یا پستی جسم کی ساخت بالون کا زیادہ یا کم ھونا سر آنکھ کان ناک ھونٹ ھاتھ پاؤن کی بناوٹ ۔۔ باقی مضمون اگلی قسط مین
No comments:
Post a Comment