Thursday, July 12, 2018

آپکی اپنی پیدا شدہ ذھنی تحریک

۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ آپکی اپنی پیدا شدہ ذھنی تحریک۔۔۔۔۔۔
ھر شخص ایک بات اچھی طرح جانتا ھے کہ جب بھی آپ کسی دوست سے ملتے ھین تو آپ اس کا صرف چہرہ دیکھ کر ھی بخوبی اندازہ لگا لیتے ھین کہ آپ کادوست اس وقت کس پوزیشن یا کیفیت مین ھے یا تو آپ کہین گے خیریت تو ھے بڑے پریشان لگ رھے ھو یا پھر آپ اسے کہین گے جناب آج کونسا خزانہ ھاتھ لگا ھے بڑے خوش خوش نظر آرھے ھین جناب یا پھر آپ یہ بھی سوال کردیتے ھین خیریت تو ھے کس سے لڑائی ھوئی ھے بڑے غصہ مین لگ رھے ھو یعنی آپ کسی کا بھی چہرہ دیکھ کر خوشی غم و غصہ افسردگی یا بیماری کا اندازہ یا قیافہ لگا لیتے ھین اسے دوسرے لفظون مین قیافہ شناسی بھی کہہ سکتے ھین یعنی ایک حس ایسی بھی آپ کے اندر موجود ھے جس سے کسی بھی انسان سے سوچنے کے انداز کا آپ پتہ لگا لیتے ھین اسے آپ ابتدائی ٹیلی پیتھی بھی کہہ سکتے ھین حقیقت یہ ھے کہ ھمارا جسم اپنے خیال کے تابع ھے جو کچھ بھی ھم سوچتے ھین اس کا اظہار چہرے اور ھمارے جسم کی حرکات سے ھوتا ھے اگر ھم منفی یا مایوس کن باتین سوچ رھے ھین تو ھمارے چہرے پہ افسردگی دکھائی دے گی اور ھم اپنا جو بھی کام کرین گے زبردستی ھی کرین گے دل لگا کر خوشی خوشی نہین کرین گے جس کی وجہ سے ھم اس کام سے جلد ھی اکتا جاتے ھین یعنی بور ھو جاتے ھین اب ان تمام باتون سے یہ بات بھی ثابت ھوتی ھے کہ ھمارے بیمار ھونے مین ھمارے خیالات کا بھی بہت کچھ حصہ ھوتا ھے
اگر ھم اپنے ذہن کو یہ تحریک دین گے کہ مین یہ کام نہین کر سکون گا کیونکہ میری طبیعت ٹھیک نہین ھے تو لازماًوہ کام کبھی بھی سرانجام نہین دے سکین گے وہ ادھورا ھی رہ جاۓ گا
اسی طرح اگر ھم روز سوچین کہ مین اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کررھا ھون تو ھمارا جسم جلد ھی اس خیال سے فوری متاثر ھوگا اور ھم جلد ھی اپنے اندر صحت مندی کی لہرین محسوس کرنے لگین گے
اب آپ کو ذرا نفسیات کے اصول سے بات سمجھاتا ھون۔۔ اس ذاتی ذھنی تحریک کے نفسیاتی اصول کی بنیاد دراصل یہ ھے کہ جس وقت قوت ارادی اور تصورات مین تصادم ھوتا ھے تو یہ بات یاد رکھین فتح ھمیشہ تصورات کی ھی ھوتی ھے قوت ارادی دھری کی دھری رہ جاتی ھے اور تصورات اتنے مضبوط ھوتے ھین جس کا آپکو اندازہ نہین ھے ذھن یکسو کرنا مسلسل ایک ھی بات سوچنا ۔۔خواہ وہ سوچ منفی ھے یا مثبت ھمشہ پورے جسم پہ حاوی ھوجاتے ھین
جب انسان اس نظریہ کو سمجھ لیتا ھے اور اس مین جو قوتین شامل ھین ان کو صحيح طرح استعمال کرتا ھے تو پھر وہ اپنی دنیاۓ خیالات کو منظم کرنے لگتا ھے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ بندے کے ھر قول فعل مین اس کے خیالات کا اثر پڑتا ھے اور اس کے تمام تعلقات بھی اس سے متاثر ھوتے ھین
یہ بات بھی یادرکھین کہ یہ ذاتی ذھنی تحریک کی کاروائی ھروقت جاری رھتی ھے اب انسان کا کام یہ ھے کہ ھم کوشش کرین کہ یہ کاروائی ھمیشہ بھلائی کے سلسلے مین استعمال ھو اور ھمارے مفاد کے خلاف نہ جانے پائے
اب جو لوگ غمگین رھتے ھین جن مین خوداعتمادی کم ھوتی ھے یا وہ لوگ جو ھمیشہ اپنی صحت کے بارے مین پریشان رھتے ھین وہ لوگ اس ذھنی تحریک سے کوئی فائدہ حاصل نہین کرسکتے کیونکہ اپنے لا شعور مین وہ لوگ منفی خیالات کو اکھٹے کرتے رھتے ھین جب بہت دنون تک یہی صورت حال رھتی ھے تو اس کے اثرات اپنا رنگ دکھانا شروع کردیتے ھین اور ان لوگون کے تمام نظریات انہی سانچون مین ڈھل جاتے ھین
کبھی کبھی ایسے لوگ یہ کوشش کرتے ھین کہ اپنے اس انداز فکر مین تبدیلی پیدا کرین لیکن اپنی قوت ارادی کو ان تباہ کن اثرات سے نہین بچاسکتے کیونکہ قوت ارادی جب تصورات کی تباہ کن طاقت سے ٹکراتی ھے تو قوت ارادی زائل ھو کر سواۓ مایوسی ناامیدی اور اداسی کی خوفناک تصویر سامنے لا کھڑا کرتی ھے لہذا کوشش بیکار جاتی ھے
اب اس نقطہ کو ذھن مین رکھین ایسے حالات مین قوت ارادی باآلاخر بالکل ختم ھو کر الٹا نقصان کا باعث بن جاتی ھے بلکہ یہ سمجھ لین بندہ جتنی کوشش کرتا ھے اتنا ھی زیادہ مایوس اور غم زدہ ھوتا جاتا ھے
اب سوچنے والی بات تو یہ ھے کہ آخر اس تخریبی قوت سے جان کیسے چھڑائی جاۓ جس کی وجہ سے شخصیت تباہ ھورھی ھے اب ایسے لوگ عموما برے حالات کا ھی شکار ھوتے ھین جسمانی حالات کے ساتھ ساتھ مالی حالات گھریلو حالات بعض لوگ تو بڑے ھی متشدد لیکن اندر سے بزدل واقع ھوتے ھین یا دوسرے لفظون مین منفی اور ھمت شکن نظریات سے خود خوف زدہ بھی رھتے ھین ھمیشہ شکست کا خوف انکے اندر رھتا ھے
ایک بات یہ بھی ذھن نشین کر لین اس وقت دنیا مین 95فیصد لوگ اس مرض کا شکار ھو چکے ھین اور یہ لوگ دنیا کے ھر معاملہ مین ناکام لوگ ھین صرف پانچ فیصد لوگ جن کی سوچ مثبت ھے اصل مین وھی لوگ پوری دنیا پہ حکمرانی کررھے ھین اور تو اور پوری دنیا کی دولت بھی انہی لوگون کے پاس ھے اور باقی لوگ ھی مسائل اور بیماریون کا شکار ھین
تاریخ اٹھا کردیکھ لین بڑے بڑے لوگ جنہوں نے معرکے سر کیے ھین صدیان گزرنے کے باوجود آج بھی تاریخ کے اوراق مین زندہ ھین ان کی کامیابیان ان کے اس ذھنی تخیل پہ ھی مبنی تھی جو شروع سے ان کے ذھن مین پختہ ھو چکے تھے اب انہون نے اپنے خیالات کو عملی شکل دے کر اصلی صورت مین دنیا کے سامنے لے آئے اب انہون نے جستجو ھمت کو سینے سے لگاۓ رکھا اور اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنا کردنیا کے سامنے لائے اور یاد رکھین ایسے لوگ ضروری نہین امیر طبقہ یا اعلی طبقہ سے ھی تعلق رکھتے ھون بلکہ ایک غریب سے غریب تر انسان کی بھی سوچ مثبت ھو سکتی ھے ھال کل کلان کو وہ اپنی لگن اور محنت اور اچھی سوچ کے بل بوتے امیر ھو جاۓ تو کوئی انوکھی بات نہین بلکہ جستجو اور لگن اور بہتر سوچ کا ھونا ضروری ھے جیسے ایک کردار آج بھی زندہ آپ کے سامنے ھے جس کا نام بل گیٹس ھے ایک وقت تھا جب انتہائی غریب آدمی تھا پھر دنیا نے دیکھا سب سے امیر آدمی کے روپ مین بھی
اب اپنی بات کی طرف آتے ھین اس مرض سے جان چھڑانے کا ایک ھی طریقہ ھے اپنے ذھن مین لگی منفی سوچ کی تصویر پہ مثبت سوچ کی تصویر لگا دین اب دماغ کا پردہ ایسا ھے جس پر تصویر ھٹانے کی ضرورت نہین ھے بلکہ اس کے اوپر جب مثبت تصویر لگائین گے تو منفی تصویر خود ھی غائب ھو جاتی ھے اب اس بات پہ ڈٹ جائین تبھی ممکن ھے آپ کامیابی حاصل کر لین یعنی آپ کو مثبت سوچ پیدا کرنے کے لئے ضروری ھے نیت صاف ھونی چاھیے یعنی کسی کے لئے بغض عناد اور دوسرون کے بارے مین برا سوچنے سے پہلے بندہ اپنا محاسبہ کرے تو نیت بھی درست ھو جاتی ھے مین نے بزرگون سے ایک ھی بات سنی تھی جس پہ آج تک عمل کررھا ھون ۔۔۔نیت صاف تو کام راس۔۔۔۔اب اس بات پہ ھمارے دین مین بھی سختی سے حکم آیا ھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیت پر ھے یعنی آپ جو بھی بیج بوئین گے تو کاٹین گے بھی وھی تو
اب بات کرتے ھین اس مضمون کو کیون لکھا تو دوستو بے شمار جسمانی عارضے جو صحت کو خراب کرکے رکھ دیتے ھین جیسے جلق زندہ مثال ھے اسی طرح دیگر بری عادات مین مبتلا ھو کر پھر مستقل مریض بن جانا اب ایسی تمام حرکات وعادات جن سے اسلام اور معاشرہ اور آپ کے والدین منع کرتے ھین اب ان عادات کو ری ایکشن کی شکل مین اپنا لینا آپ کے منفی تصورات پسند ھونے کی دلیل ھین اب اگر انسان تھوڑا سا غور کر لے آخر مجھے منع کیون کیا جاتا ھے میری ھر بات پہ ولدین ردعمل کا اظہار کیون کرتے ھین تو میرا خیال ھے آپ بے شمار پریشانیون سے بچ جائین گے آخر والدین کے ذھن مین یا معاشرہ کسی بات پہ پابندی لگاتا ھے اس کے پیچھے کئی سالون کے تجربات ھوتے ھین یاد رکھین اگر آپ نے بدنی نفسیاتی روحانی امراض سے بچنا ھے تو اپنی سوچ کا رخ تبدیل کر لین اور اپنے اندر مثبت سوچ پیدا کرین اور اپنے اخلاقیات درست کرین ذھن کو پاکیزہ رکھین اور ذھن کو پاکیزہ رکھنے کا آسان حل اللہ تعالی سے قربت مین ھے اور اس قربت کے لئے نماز پڑھنا از حد ضروری ھے اللہ تعالی سب کو ھدایت نصیب فرمائے آخری بات
اب میرا مضمون ذرا گروپ کے دیگر مضامین سے ھٹ کر ھے سب دوست سوچ رھے ھون گے کہ آج محمود بھٹہ کےقلم کا رخ کدھر مڑ گیا کہان خالص طبی مضامین اور کہان فلسفہ اور نفسیات کا ملغوبہ پیش کردیا بہرحال مین نے اس مضمون کی شدید ضرورت محسوس کی جس کی وجہ سے لکھا اب کچھ دوستو کو اگر میرا مضمون پسند نہ آیا ھو یا علمی لحاظ سے کوئی جھول نظر آیا ھو تو مجھے جاھل اور میری غریب علمی سمجھ کے نظر انداز کردین یا سمجھا دین

No comments:

Post a Comment