۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔تشخیص امراض و مزاج ۔۔۔۔۔۔قسط نمبر 12۔۔۔
ذاتی مصروفیت کی وجہ سے دودن مضمون نہ لکھ سکا اور تقریبا گروپ سے بھی غیر حاضررھا آج بات کرتے ھین حکم نمبر سات کی اور کوشش ھو گی تواتر برقرار رھے
حکم نمبر ٧۔۔۔اگر دائین پاؤن کی درمیانی انگلی پر سنارون کے ذنبور کی مانند رنگین سونے کی مانند چمک دار پھنسی پیدا ھو جاۓ تو سمجھ لینا چاھیے کہ مرض کے پیدا ھونے کے بارہ دن کے اندر اندر مریض ھلاک ھو جاۓ گا اب اس کی ایک علامت یہ بھی ھو گی مرض شروع ھوتے ھی مریض کو تیز چرپری چیزین کھانے کی شدید خواھش کرے گا اب ھم جدید تحقیق پیش کرین گے تو دوستو یہ غدی اعصابی تحریک کی پیداوار ھے کیونکہ یہ تو آپ جانتے ھی ھین اب زرد رنگ ھی سونے جیسا ھے اور زرد رنگ ھی صفرا کا رنگ ھے یہ زرد رنگ کی رطوبت دراصل جگر کی پیدا کردا ھے اور یہ بھی آپ جانتے ھین چرپری چیزین جگر کی غذا مین شامل ھین یہ بات بھی یادرکھین جب بھی غدی اعصابی تحریک سے کسی عضو مین سوزش ھو کر ورم پیدا ھوتی ھے تو اس وقت پورے جسم کے مخرج صفرا کو بہت زیادہ خارج کرتے ھین اور اس تحریک مین صفرا کی پیدائش کم ھوتی ھے اور جب خارج بہت زیادہ ھو رھی ھوتی ھے تو موت کا سبب بن جاتی ھے اگر پھنسی جلدی تحلیل ھو جاۓ تب تو درست ھو گیا ورنہ مریض سے تحلیل عضلات زیادہ دیر برداشت نہین ھو سکتا اور بندہ اگلے جہان کوچ کرجاتا ھے امید ھے بات سمجھ آگئی ھو گی اور ایک بات اور بھی ذھن نشین کر لین یہ احکامات جب لکھے گئے تھے اس زمانہ مین ابھی طب پر اتنی وسیع تحقیقات نہین ھوئی تھی آج کے دور مین انہی علامات کا بڑی حد تک علاج ممکن ھے جیسا کہ آپ کو ساتھ ساتھ بتا رھا ھون اب آپ کو علم ھو گیا ھے نا غدی اعصابی تحریک پیدا ھوئی تو کونسا علاج کرنا ھے آپ فورا جواب مین کہین گے اعصابی غدی اور اعصابی عضلاتی سے عضلاتی اعصابی تک آپ جوش و خروش سے بتا دین گے
دوسری اور اھم بات جو مین کرنے لگا ھون اسے بہت غور سے پڑھنا کل یا پرسون کسی گروپ ممبر نے مجھے سکرین شارٹ بھیجا جس مین نظریہ مفرد اعضاء کو گالیان تک نکالی گئی تھی ایسی پوسٹین مین پہلے بھی پڑھ چکا ھون اور نظر انداز کردیا کرتا ھون اس کی وجہ بھی بتاۓ دیتا ھون ایک تو پوسٹ لکھنے والے کی علمی وسعت کا خوب اندازہ ھورھا ھوتا ھے بحث ھمیشہ کسی ایسے انسان سے کی جاتی ھے جو کم سے کم آپ کی بات کا جواب دینے کا اھل ھو اگر مینڈک اپنی زندگی کنوین مین ھی گزار دے تو اس کی ساری کائینات وھی کنوان ھی ھوتا ھے ایک دیوار سے اچھلتے کودتے وہ دوسری دیوار تک پہنچتا ھے تو سمجھتا ھے مین نے پورا سمندر عبور کرلیا ھے اگر اسے کنوین سے نکال کر سچی مچی اصل سمندر مین ڈال دیا جاۓ اور کہا جاۓ لے اب سرحد عبور کر تو آگے آپ بھی سمجھتے ھین اس کے ساتھ کیا بیتے گی دوسری بات بہت سے لوگون کے ذھن مین ایک اور بات بھی بسی ھوئی ھے کہ نظریہ مفرد اعضاء کے موجد حضرت دوست محمد صابر ملتانیؒ ھین مجھے اس بات سے بھی اختلاف ھے اس بارے مین میری لمبی گفتگو سید ادریس گیلانی صاحب سے بھی ھوتی رھتی ھے اور اس بات کو مین چند منٹ مین ثابت بھی کردونگا دوست محمد صابر ملتانی نے طب کو سمجھا اور آسان الفاط مین تشریحات کردین اس مین پہلا قدم حکیم احمد دین صاحب نے اٹھایا دوسرا قدم دوست محمد صابر ملتانی صاحب نے اٹھایا ان صاحبان نے تشریحات کی ھین اور دنیاۓ طب پہ احسان کیا ھے لیکن آپ غور کرین گے تو آپ کو صدیون پہلے لکھے بقراط کے ان احکامات مین بھی نظریہ کی حقیقت نظر آجاۓ گی بشرطیکہ آپ نے غور سے پڑھا تب ۔۔۔۔ پہلے ھوتا یہی رھا ھے کہ طب کو اتنے مشکل انداز مین بیان کیا گیا ھے جسے سمجھنا ھر کسی کے بس کی بات ھی نہین ھے اور جو آج بھی طب کی حقیقی کتابین ھین ان کو سمجھنا ھزار مین سے پانچ طبیب سمجھ سکتے ھین ورنہ ممکن نہین ھے اور جو نصاب کالجون مین پڑھایا جاتا ھے وہ انتہائی آسان ھے لیکن وہ بھی کسی چارسالہ ڈپلومہ ھولڈر کے پلے نہین پڑتا اگر اصل کتابین اس طالب علم کے سامنے رکھ دی جائین تو یقین جانین کچھ بھی نہ سمجھ سکے اب یہی وجہ ھے کہ جو لوگ علم طب مین دلچسپی رکھتے ھین وہ لازما نظریہ کی طرف آتے ھین جو لوگ اس کی مخالفت مین ھین ان کا کردار سواۓ طب کو زوال پذیر کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہین آئین اب اگلا حکم سمجھین
حکم نمبر٨۔۔ اگر انگلیون کے ناخنون کا رنگ سیاہ ھو جاۓ اور پیشانی پہ خونی پھنسی پیدا ھوجاۓتو جان لین مرض کی ابتدا سے مریض چار روز کے اندر مرجاۓ گا اس کی علامت یہ ھے کہ مریض چھینکین اور جمائیان بہت زیادہ آئین گی اب جدید تشریح کرتے ھین آپ جانتے ھین سیاہ رنگ سودا کی زیادتی سے پیدا ھوتا ھے اب وہ اعضاء جہان سوداوی مادے کا اجتماع ھو جاۓ اور سودا کا تعلق عضلات قلب سے ھے اب سرخ ورم جسے آپ قدیم طب کی رو سے دموی ورم کہتے ھین اس کا تعلق بھی عضلات سے ھی ھے اور یہ ورم اس وقت پیدا ھوتی ھے جب قلب عضلات کی مشینی تحریک عضلاتی غدی پیدا ھوجاۓ چونکہ یہ ورم ایک حیاتی عضو دماغ کے بالکل قریب ھوئی ھے جس کی اذیت دماغ کے لئے ناقابل برداشت ھوتی ھے اب دوسری طرف دماغ کی طرف دوران خون بہت تیز ھو کر شدید تحلیل ھو جاتی ھے جس سے جلد موت واقع ھوجاتی ھے مریض کو جمائیان آنا عضلات کے تشنج کی علامت ھے اور چھینکین آنا دماغ کی طرف دوران خون بڑھ جانے کی علامت ھے آج کے لئے اتنا ھی کافی ھے اب آپ نے ان علامات کو غور سے پڑھنا ھے آپ کو نظر آۓ گا باقائدہ طور پہ بقراط نے جسمی تقسیم کی ھے یا تو علامات کا دائین سائیڈ ذکر کیا ھے یا بائین سائیڈ ذکر کیا ھے اسی طرح اوپر نیچے بھی تقسیم کررکھی ھے بے شک ان علماۓ طب کے پاس سہولیات کا فقدان تھا لیکن علم موجود تھا جب تک علم یونان مین تھا اسے بہت عروج دیا گیا پھر جب مسلمانون کے ھاتھ آیا تو شروع مین بہت عروج ملا پھر جب مسلمان شراب شباب اور کباب مین ڈوب کر اقتدار کی جنگ مین لڑا اور آپس کی ان جنگون نے زوال کا دروازہ کھولا اور چنگیز آندھی اور طوفان کی طرح آیا اور بغدار کے کتب خانے دریا برد کردیے وہ دن ھے اور یہ دن ھے حالات آپ کے سامنے ھین کسی بھی علمی میدان مین مسلمانون نے عروج حاصل نہین کیا اب یہ بحث میرے مضمون کا حصہ نہین ھے نہین تو بہت کچھ لکھ دیتا اللہ تعالی ھمارے حال پہ رحم فرمائے نیک تمناؤن کے ساتھ اجازت محمود بھٹہ
اب ایک آخری بات یاد آگئی وہ کر ھی لون تو بہتر ھے
بہت سے لوگ پوسٹ چوری کرکے پھر اپنے پیج یا گروپ مین اپنے نام کے ساتھ لگاتے ھین مجھے کوئی نہ کوئی دوست اس بارے مین بتا ھی دیتا ھے لیکن انہین مین کہتا کچھ بھی نہین اب ان کے لئے ایک بات پریشانی والی بننے والی ھے اس مضمون کا آگے چل کر بہت سا حصہ مجھے اپنے ھاتھون سے نقشے بنا کر پھر تصویر بنا کر سمجھانا پڑے گا اب اس کے بغیر یہ ممکن ھی نہین مضمون مکمل کر سکون اور آپ کی وجہ سے مین ان نقشون پہ اپنا نام لازما لکھون گا اب آپ کو پریشانی بنے گی اس لئے بہتر یہی ھے جیسے دوسرے بہت سے دوست میرا مضمون شیئر کرلیتے ھین یا میرے ھی نام سے لگاتے ھین آپ بھی یا تو یہی طریقہ اختیار کرین اور گناہ سے بھی بچ جائین گے اور علم بھی پھیل جاۓ گا یا چوری کا کوئی طریقہ سوچ لین یا چوری چھوڑ دین آپ کو یہ بھی بتا دون میرا لکھنے کا مخصوص انداز ھے جسے اپنانا بہت ھی مشکل کام ھے ھر شخص کی تحریر اسی طرح پہچانی جا سکتی ھے جب آپ لگاتے ھین تو لوگ پھر بھی انداز تحریر سے پہچان لیتے ھین اور جب آپ اپنے گروپ مین خود سے لکھتے ھین جیسے ۔۔۔۔۔ موجھے عردو پار موکمل ابور حصل ھے ۔۔۔ تو اس طرح کے انتہائی عمیق اور دقیق الفاظ اور فقرون سے لوگ آپ کی شخصیت پہچان جانتے ھین اس لئے بہتر سے بہتری کی طرف آئین
۔۔۔۔۔تشخیص امراض و مزاج ۔۔۔۔۔۔قسط نمبر 12۔۔۔
ذاتی مصروفیت کی وجہ سے دودن مضمون نہ لکھ سکا اور تقریبا گروپ سے بھی غیر حاضررھا آج بات کرتے ھین حکم نمبر سات کی اور کوشش ھو گی تواتر برقرار رھے
حکم نمبر ٧۔۔۔اگر دائین پاؤن کی درمیانی انگلی پر سنارون کے ذنبور کی مانند رنگین سونے کی مانند چمک دار پھنسی پیدا ھو جاۓ تو سمجھ لینا چاھیے کہ مرض کے پیدا ھونے کے بارہ دن کے اندر اندر مریض ھلاک ھو جاۓ گا اب اس کی ایک علامت یہ بھی ھو گی مرض شروع ھوتے ھی مریض کو تیز چرپری چیزین کھانے کی شدید خواھش کرے گا اب ھم جدید تحقیق پیش کرین گے تو دوستو یہ غدی اعصابی تحریک کی پیداوار ھے کیونکہ یہ تو آپ جانتے ھی ھین اب زرد رنگ ھی سونے جیسا ھے اور زرد رنگ ھی صفرا کا رنگ ھے یہ زرد رنگ کی رطوبت دراصل جگر کی پیدا کردا ھے اور یہ بھی آپ جانتے ھین چرپری چیزین جگر کی غذا مین شامل ھین یہ بات بھی یادرکھین جب بھی غدی اعصابی تحریک سے کسی عضو مین سوزش ھو کر ورم پیدا ھوتی ھے تو اس وقت پورے جسم کے مخرج صفرا کو بہت زیادہ خارج کرتے ھین اور اس تحریک مین صفرا کی پیدائش کم ھوتی ھے اور جب خارج بہت زیادہ ھو رھی ھوتی ھے تو موت کا سبب بن جاتی ھے اگر پھنسی جلدی تحلیل ھو جاۓ تب تو درست ھو گیا ورنہ مریض سے تحلیل عضلات زیادہ دیر برداشت نہین ھو سکتا اور بندہ اگلے جہان کوچ کرجاتا ھے امید ھے بات سمجھ آگئی ھو گی اور ایک بات اور بھی ذھن نشین کر لین یہ احکامات جب لکھے گئے تھے اس زمانہ مین ابھی طب پر اتنی وسیع تحقیقات نہین ھوئی تھی آج کے دور مین انہی علامات کا بڑی حد تک علاج ممکن ھے جیسا کہ آپ کو ساتھ ساتھ بتا رھا ھون اب آپ کو علم ھو گیا ھے نا غدی اعصابی تحریک پیدا ھوئی تو کونسا علاج کرنا ھے آپ فورا جواب مین کہین گے اعصابی غدی اور اعصابی عضلاتی سے عضلاتی اعصابی تک آپ جوش و خروش سے بتا دین گے
دوسری اور اھم بات جو مین کرنے لگا ھون اسے بہت غور سے پڑھنا کل یا پرسون کسی گروپ ممبر نے مجھے سکرین شارٹ بھیجا جس مین نظریہ مفرد اعضاء کو گالیان تک نکالی گئی تھی ایسی پوسٹین مین پہلے بھی پڑھ چکا ھون اور نظر انداز کردیا کرتا ھون اس کی وجہ بھی بتاۓ دیتا ھون ایک تو پوسٹ لکھنے والے کی علمی وسعت کا خوب اندازہ ھورھا ھوتا ھے بحث ھمیشہ کسی ایسے انسان سے کی جاتی ھے جو کم سے کم آپ کی بات کا جواب دینے کا اھل ھو اگر مینڈک اپنی زندگی کنوین مین ھی گزار دے تو اس کی ساری کائینات وھی کنوان ھی ھوتا ھے ایک دیوار سے اچھلتے کودتے وہ دوسری دیوار تک پہنچتا ھے تو سمجھتا ھے مین نے پورا سمندر عبور کرلیا ھے اگر اسے کنوین سے نکال کر سچی مچی اصل سمندر مین ڈال دیا جاۓ اور کہا جاۓ لے اب سرحد عبور کر تو آگے آپ بھی سمجھتے ھین اس کے ساتھ کیا بیتے گی دوسری بات بہت سے لوگون کے ذھن مین ایک اور بات بھی بسی ھوئی ھے کہ نظریہ مفرد اعضاء کے موجد حضرت دوست محمد صابر ملتانیؒ ھین مجھے اس بات سے بھی اختلاف ھے اس بارے مین میری لمبی گفتگو سید ادریس گیلانی صاحب سے بھی ھوتی رھتی ھے اور اس بات کو مین چند منٹ مین ثابت بھی کردونگا دوست محمد صابر ملتانی نے طب کو سمجھا اور آسان الفاط مین تشریحات کردین اس مین پہلا قدم حکیم احمد دین صاحب نے اٹھایا دوسرا قدم دوست محمد صابر ملتانی صاحب نے اٹھایا ان صاحبان نے تشریحات کی ھین اور دنیاۓ طب پہ احسان کیا ھے لیکن آپ غور کرین گے تو آپ کو صدیون پہلے لکھے بقراط کے ان احکامات مین بھی نظریہ کی حقیقت نظر آجاۓ گی بشرطیکہ آپ نے غور سے پڑھا تب ۔۔۔۔ پہلے ھوتا یہی رھا ھے کہ طب کو اتنے مشکل انداز مین بیان کیا گیا ھے جسے سمجھنا ھر کسی کے بس کی بات ھی نہین ھے اور جو آج بھی طب کی حقیقی کتابین ھین ان کو سمجھنا ھزار مین سے پانچ طبیب سمجھ سکتے ھین ورنہ ممکن نہین ھے اور جو نصاب کالجون مین پڑھایا جاتا ھے وہ انتہائی آسان ھے لیکن وہ بھی کسی چارسالہ ڈپلومہ ھولڈر کے پلے نہین پڑتا اگر اصل کتابین اس طالب علم کے سامنے رکھ دی جائین تو یقین جانین کچھ بھی نہ سمجھ سکے اب یہی وجہ ھے کہ جو لوگ علم طب مین دلچسپی رکھتے ھین وہ لازما نظریہ کی طرف آتے ھین جو لوگ اس کی مخالفت مین ھین ان کا کردار سواۓ طب کو زوال پذیر کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہین آئین اب اگلا حکم سمجھین
حکم نمبر٨۔۔ اگر انگلیون کے ناخنون کا رنگ سیاہ ھو جاۓ اور پیشانی پہ خونی پھنسی پیدا ھوجاۓتو جان لین مرض کی ابتدا سے مریض چار روز کے اندر مرجاۓ گا اس کی علامت یہ ھے کہ مریض چھینکین اور جمائیان بہت زیادہ آئین گی اب جدید تشریح کرتے ھین آپ جانتے ھین سیاہ رنگ سودا کی زیادتی سے پیدا ھوتا ھے اب وہ اعضاء جہان سوداوی مادے کا اجتماع ھو جاۓ اور سودا کا تعلق عضلات قلب سے ھے اب سرخ ورم جسے آپ قدیم طب کی رو سے دموی ورم کہتے ھین اس کا تعلق بھی عضلات سے ھی ھے اور یہ ورم اس وقت پیدا ھوتی ھے جب قلب عضلات کی مشینی تحریک عضلاتی غدی پیدا ھوجاۓ چونکہ یہ ورم ایک حیاتی عضو دماغ کے بالکل قریب ھوئی ھے جس کی اذیت دماغ کے لئے ناقابل برداشت ھوتی ھے اب دوسری طرف دماغ کی طرف دوران خون بہت تیز ھو کر شدید تحلیل ھو جاتی ھے جس سے جلد موت واقع ھوجاتی ھے مریض کو جمائیان آنا عضلات کے تشنج کی علامت ھے اور چھینکین آنا دماغ کی طرف دوران خون بڑھ جانے کی علامت ھے آج کے لئے اتنا ھی کافی ھے اب آپ نے ان علامات کو غور سے پڑھنا ھے آپ کو نظر آۓ گا باقائدہ طور پہ بقراط نے جسمی تقسیم کی ھے یا تو علامات کا دائین سائیڈ ذکر کیا ھے یا بائین سائیڈ ذکر کیا ھے اسی طرح اوپر نیچے بھی تقسیم کررکھی ھے بے شک ان علماۓ طب کے پاس سہولیات کا فقدان تھا لیکن علم موجود تھا جب تک علم یونان مین تھا اسے بہت عروج دیا گیا پھر جب مسلمانون کے ھاتھ آیا تو شروع مین بہت عروج ملا پھر جب مسلمان شراب شباب اور کباب مین ڈوب کر اقتدار کی جنگ مین لڑا اور آپس کی ان جنگون نے زوال کا دروازہ کھولا اور چنگیز آندھی اور طوفان کی طرح آیا اور بغدار کے کتب خانے دریا برد کردیے وہ دن ھے اور یہ دن ھے حالات آپ کے سامنے ھین کسی بھی علمی میدان مین مسلمانون نے عروج حاصل نہین کیا اب یہ بحث میرے مضمون کا حصہ نہین ھے نہین تو بہت کچھ لکھ دیتا اللہ تعالی ھمارے حال پہ رحم فرمائے نیک تمناؤن کے ساتھ اجازت محمود بھٹہ
اب ایک آخری بات یاد آگئی وہ کر ھی لون تو بہتر ھے
بہت سے لوگ پوسٹ چوری کرکے پھر اپنے پیج یا گروپ مین اپنے نام کے ساتھ لگاتے ھین مجھے کوئی نہ کوئی دوست اس بارے مین بتا ھی دیتا ھے لیکن انہین مین کہتا کچھ بھی نہین اب ان کے لئے ایک بات پریشانی والی بننے والی ھے اس مضمون کا آگے چل کر بہت سا حصہ مجھے اپنے ھاتھون سے نقشے بنا کر پھر تصویر بنا کر سمجھانا پڑے گا اب اس کے بغیر یہ ممکن ھی نہین مضمون مکمل کر سکون اور آپ کی وجہ سے مین ان نقشون پہ اپنا نام لازما لکھون گا اب آپ کو پریشانی بنے گی اس لئے بہتر یہی ھے جیسے دوسرے بہت سے دوست میرا مضمون شیئر کرلیتے ھین یا میرے ھی نام سے لگاتے ھین آپ بھی یا تو یہی طریقہ اختیار کرین اور گناہ سے بھی بچ جائین گے اور علم بھی پھیل جاۓ گا یا چوری کا کوئی طریقہ سوچ لین یا چوری چھوڑ دین آپ کو یہ بھی بتا دون میرا لکھنے کا مخصوص انداز ھے جسے اپنانا بہت ھی مشکل کام ھے ھر شخص کی تحریر اسی طرح پہچانی جا سکتی ھے جب آپ لگاتے ھین تو لوگ پھر بھی انداز تحریر سے پہچان لیتے ھین اور جب آپ اپنے گروپ مین خود سے لکھتے ھین جیسے ۔۔۔۔۔ موجھے عردو پار موکمل ابور حصل ھے ۔۔۔ تو اس طرح کے انتہائی عمیق اور دقیق الفاظ اور فقرون سے لوگ آپ کی شخصیت پہچان جانتے ھین اس لئے بہتر سے بہتری کی طرف آئین
No comments:
Post a Comment