۔۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔۔قسط نمبر36۔۔۔۔
انشاءاللہ مضمون آخر تک مکمل کرین گے میری نظر مین ابھی آدھا مضمون شاید ھو گیا ھے نبض کی کتابون مین درج تشریحات ابھی کافی ھین تھوڑا کام نہین ھے بلکہ ابھی تو قدیم نبض کی تشریحات جاری ھین پھر نظریہ مفرداعضاء کے اصول قوانین فی النبض لکھین گے پھر فلاسفی نبض بھی لکھنی ھے یہ بات کتابون مین نہین لکھی گئی پھر وہ نظریات نبض جو واقعی خفیہ طریقہ سے خاندانون مین چلے آرھے ھین یہ بھی کسی کتاب مین نہین لکھے گئے پھر سر سے لے کر پاؤن تک ھر مرض کا نام اور اسکی نبض بھی لکھ دونگا اب مضمون مکمل ھو گا چلین آج نبض قدیم کے چوتھے قانون قوام آلہ پہ بات کرتے ھین قوام آلہ کو بھی تین اقسام مین تقسیم کیا گیا ھے قوام آلہ سے مراد نبض کی سختی اور نرمی مراد ھے
نوٹ ۔۔ ایک بات کا آپ نے دھیان رکھنا ھے نبض کی جتنی بھی قدیم تشریحات ھین ان پہ نظر رکھین اور خود ھی اندازہ لگا لین بے شمار نبض کی ایسی اقسام لکھ دی گئین ھین سچی بات ھے ان کی ضرورت ھی نہ تھی ان تقسیمون کو اور قسمون کو پڑھنے اور سمجھنے مین ساری زندگی لگ جاتی ھے پھر بھی شاید آپ سمجھ نہ سکین گے جہان تک بات مین سمجھا ھون جیسے پہلے تاریخ لکھی جاتی تھی اور خود تاریخ کی کتابون کو اٹھا کر میری بات کی تصدیق فرما لین تاریخ ابن خلدون تاریخ طبری تاریخ حشام تاریخ اسلام انسائکلوپیڈیا آف اسلام یا پھر مغربی مورخ ھیرالڈ لیمپ کی تاریخ اٹھا لین ھوتا یہ تھا مورخ کے پاس آکر کسی بھی ایک جنگ یا کسی بھی اھم واقعہ کی بارے مین کوئی بھی شخص آکر روایت کرتا واقعہ کی عینی شہادت لکھواتا مورخ من وعن بیان لکھتا ساتھ مورخ اس شخص کی معاشرے مین عزت وقار اور حیثت بھی لکھے دیتا کہ یہ شخص کردار کے لحاظ سے کیسا ھے اب دوسرا شخص وھی واقعہ یا اسی جنگ کی کسی اور طرح سے یا بالکل الٹی شہادت آکر لکھواتا مورخ وھی لکھ دیتا ساتھ اس کا بھی کردار لکھے دیتا اب مورخ نے قاری پہ بات چھوڑ دی کہ پڑھ کر خود فیصلہ کرتا رہ کیا سچ ھے اور کیا جھوٹ ھے لیکن موجودہ دور مین حکومتین بیان لکھوایا کرتی ھین وھی صرف تاریخ کا حصہ بنتی ھے خواہ سچ لکھواۓ یا جھوٹ
اب بالکل یہی کچھ طب کے ساتھ ھوا ھے جیسے ھی کسی بڑے طبیب نے اپنی تجویز شدہ اصطلاحات نبض لکھی تو آنے والے وقت مین ھر اصطلاح کو شامل کردیا گیا جس مین سواۓ اس کے کہ نام نئے رکھے گئے ورنہ باقی بات وھی لکھی ھے جو دوسری اصطلاح مین آپ بھی پڑھین گے اب نبض کی ایسی تشریحات شاید ھی کسی کو سمجھ آتی ھون اب طب کے زوال مین سے ایک سبب یہ بھی تھا موجودہ دور مین یہی غلطیان حضرت دوست محمد صابر ملتانی ؒ نے چھانٹی اور تمام طبی اصولون اور قانون کو نئے سرے سے آسان الفاظ مین آسان نامون سے لکھے جس پہ ایک شور مچ اٹھا حسد بغض ھم مین کوٹ کوٹ کر بھرا ھے اسلام جس بری عادت سے منع کرتا ھے ھم ھین کہ وھی عادت پہلے اپنانا فخر سمجھتے ھین پچھلی گزری صدی مین وہ ادارے اور کتابی نامور حکماء جن کا قبضہ وقت طب پہ تھا انہون نے شدید مخالفت کی مین نے ان مین سے کسی بھی ادارے یاشخص کی کسی بھی قسم کی طبی خدمات آج تک نہین دیکھی ھان یہ دیکھا ھے اب اسی گروہ کے پیچھے چلنے والے سڑکون پہ چیختے پھررھے ھین اور پولیس سے لاٹھیان کھانا خوراک کا حصہ بن گیا ھے طب کا جنازہ نکال دیا زوال کیا آخری سانس لے رھی ھے طب صابر ملتانی نے چیلنج ایلوپیتھی کو کیا اور وہ سامنے نہین آۓ جن کو ساتھ ملانا چاھا بڑے بڑے ھالون مین اپنے خرچے سے دعوت دے کر اپنا نظریہ پیش کیا تو انہون نے کہا صابر ھے تو بالکل سچا لیکن تیری وہ عزت وتوقیر نہین ھے جو ھماری ھے اس لئے ھم تیرے پیچھے چلین تو ھماری بے عزتی ھے ھمارے پیچھے تو چل لیکن یہ تحقیق مین اپنا نہین ھمارا نام سامنے رکھ دوستو یہ سب کچھ اس لئے لکھا ھے تاکہ آپ کو جدید طریقہ سمجھنے مین ابہام نہ رھے اب بات کرتے ھین قوام آلہ کی تو نبض کی سختی اور نرمی کو قوام آلہ کہتے ھین اس کے تحت بھی تین نبضین ھین صلب ۔۔لین ۔۔۔معتدل
صلب۔۔۔ایسی نبض جو نباض کی انگلیون کے پورون کو سخت محسوس ھو ایسی نبض خشکی پر دلالت کرتی ھے سخت سے مراد تنی ھوئی جس مین لچک کم ھو یہ دلالت مرض رعشہ ذات الریہہ ۔۔امراض گردہ ۔۔تصغیر القلب عموما ویاگرہ کھانے کے بعد یہی نبض ھوا کرتی ھے ان پہ دلالت کرتی ھے ھان اگر مریض کی عمر پچاس سال سے زیادہ ھو تو ایسی نبض نظر آۓ تو سمجھ لین وہ مریض یا تو آتشک مین مبتلا ھے یا شراب نوشی کا عادی ھے نظریہ مفرداعضاء کے تحت یہ نبض عضلاتی ھے
لیّن نبض ۔۔۔۔ایسی نبض جو نرم ھو یعنی صلب کے بالکل الٹ والی نبض ھو تو یہ کثرت رطوبات کا اظہار کرتی ھے جس سے خون کی کمی اندرونی زخم شوگر جیسی امراض مین ھوا کرتی ھے نظریہ کے تحت یہ اعصابی نبض ھے
معتدل ۔۔اب آپ جان ھی گئے ھونگے مین نے کیا لکھنا ھے۔۔جی ھان نہ نبض سخت ھو نہ ھی نرم یعنی درمیان والی ھو اسے یاد رکھین متوسط نبض بھی کہتے ھین یہ نظریہ کے تحت غدی نبض ھے جبکہ طب قدیم اسے معتدل نبض کہتی ھے اب لفظ اور اصطلاح معتدل پہ آپ سوچتے ھی ھونگے کہ ھر قانون مین ساتھ قسمون کے رائج ھے لیکن کردار کچھ بھی نہین ھے یہی تو مسائل ھین طب قدیم کے ساتھ جو آھستہ آھستہ آپ کو سمجھ آئین گے اور ان کا حل بھی آپ کو بتایا جاۓ گا پریشان نہین ھونا اب تھوڑی تشریح کردیتے ھین
دستور کے مطابق نباض مریض کی نبض پہ انگلیوں کے پورے رکھے اگر انگلیان رکھتے ھی نبض سخت اور تنی ھوئی معلوم ھو تو صلب نبض ھے تو دبانے سے آپ کے پورون کے نیچے سے بے شک پھسل جاۓ لیکن اپنا تناؤ نہ چھوڑے تو یہ نبض صلب ھے اگر نرم ملائم آسانی سے دب جانے والی یا ڈھیلی نبض محسوس ھو تو یہ لین ھے اب نہ تو زیادہ تنی ھو نہ ھی زیادہ نرم ھو درمیان والی ھو تو معتدل نبض ھے
نوٹ۔۔کچھ موازنہ پہلے سے پڑھی ھوئی نبض سریع بطی اب صلب و لین پہ غور کرین باقی مضمون اگلی قسط مین
۔۔۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔۔قسط نمبر36۔۔۔۔
انشاءاللہ مضمون آخر تک مکمل کرین گے میری نظر مین ابھی آدھا مضمون شاید ھو گیا ھے نبض کی کتابون مین درج تشریحات ابھی کافی ھین تھوڑا کام نہین ھے بلکہ ابھی تو قدیم نبض کی تشریحات جاری ھین پھر نظریہ مفرداعضاء کے اصول قوانین فی النبض لکھین گے پھر فلاسفی نبض بھی لکھنی ھے یہ بات کتابون مین نہین لکھی گئی پھر وہ نظریات نبض جو واقعی خفیہ طریقہ سے خاندانون مین چلے آرھے ھین یہ بھی کسی کتاب مین نہین لکھے گئے پھر سر سے لے کر پاؤن تک ھر مرض کا نام اور اسکی نبض بھی لکھ دونگا اب مضمون مکمل ھو گا چلین آج نبض قدیم کے چوتھے قانون قوام آلہ پہ بات کرتے ھین قوام آلہ کو بھی تین اقسام مین تقسیم کیا گیا ھے قوام آلہ سے مراد نبض کی سختی اور نرمی مراد ھے
نوٹ ۔۔ ایک بات کا آپ نے دھیان رکھنا ھے نبض کی جتنی بھی قدیم تشریحات ھین ان پہ نظر رکھین اور خود ھی اندازہ لگا لین بے شمار نبض کی ایسی اقسام لکھ دی گئین ھین سچی بات ھے ان کی ضرورت ھی نہ تھی ان تقسیمون کو اور قسمون کو پڑھنے اور سمجھنے مین ساری زندگی لگ جاتی ھے پھر بھی شاید آپ سمجھ نہ سکین گے جہان تک بات مین سمجھا ھون جیسے پہلے تاریخ لکھی جاتی تھی اور خود تاریخ کی کتابون کو اٹھا کر میری بات کی تصدیق فرما لین تاریخ ابن خلدون تاریخ طبری تاریخ حشام تاریخ اسلام انسائکلوپیڈیا آف اسلام یا پھر مغربی مورخ ھیرالڈ لیمپ کی تاریخ اٹھا لین ھوتا یہ تھا مورخ کے پاس آکر کسی بھی ایک جنگ یا کسی بھی اھم واقعہ کی بارے مین کوئی بھی شخص آکر روایت کرتا واقعہ کی عینی شہادت لکھواتا مورخ من وعن بیان لکھتا ساتھ مورخ اس شخص کی معاشرے مین عزت وقار اور حیثت بھی لکھے دیتا کہ یہ شخص کردار کے لحاظ سے کیسا ھے اب دوسرا شخص وھی واقعہ یا اسی جنگ کی کسی اور طرح سے یا بالکل الٹی شہادت آکر لکھواتا مورخ وھی لکھ دیتا ساتھ اس کا بھی کردار لکھے دیتا اب مورخ نے قاری پہ بات چھوڑ دی کہ پڑھ کر خود فیصلہ کرتا رہ کیا سچ ھے اور کیا جھوٹ ھے لیکن موجودہ دور مین حکومتین بیان لکھوایا کرتی ھین وھی صرف تاریخ کا حصہ بنتی ھے خواہ سچ لکھواۓ یا جھوٹ
اب بالکل یہی کچھ طب کے ساتھ ھوا ھے جیسے ھی کسی بڑے طبیب نے اپنی تجویز شدہ اصطلاحات نبض لکھی تو آنے والے وقت مین ھر اصطلاح کو شامل کردیا گیا جس مین سواۓ اس کے کہ نام نئے رکھے گئے ورنہ باقی بات وھی لکھی ھے جو دوسری اصطلاح مین آپ بھی پڑھین گے اب نبض کی ایسی تشریحات شاید ھی کسی کو سمجھ آتی ھون اب طب کے زوال مین سے ایک سبب یہ بھی تھا موجودہ دور مین یہی غلطیان حضرت دوست محمد صابر ملتانی ؒ نے چھانٹی اور تمام طبی اصولون اور قانون کو نئے سرے سے آسان الفاظ مین آسان نامون سے لکھے جس پہ ایک شور مچ اٹھا حسد بغض ھم مین کوٹ کوٹ کر بھرا ھے اسلام جس بری عادت سے منع کرتا ھے ھم ھین کہ وھی عادت پہلے اپنانا فخر سمجھتے ھین پچھلی گزری صدی مین وہ ادارے اور کتابی نامور حکماء جن کا قبضہ وقت طب پہ تھا انہون نے شدید مخالفت کی مین نے ان مین سے کسی بھی ادارے یاشخص کی کسی بھی قسم کی طبی خدمات آج تک نہین دیکھی ھان یہ دیکھا ھے اب اسی گروہ کے پیچھے چلنے والے سڑکون پہ چیختے پھررھے ھین اور پولیس سے لاٹھیان کھانا خوراک کا حصہ بن گیا ھے طب کا جنازہ نکال دیا زوال کیا آخری سانس لے رھی ھے طب صابر ملتانی نے چیلنج ایلوپیتھی کو کیا اور وہ سامنے نہین آۓ جن کو ساتھ ملانا چاھا بڑے بڑے ھالون مین اپنے خرچے سے دعوت دے کر اپنا نظریہ پیش کیا تو انہون نے کہا صابر ھے تو بالکل سچا لیکن تیری وہ عزت وتوقیر نہین ھے جو ھماری ھے اس لئے ھم تیرے پیچھے چلین تو ھماری بے عزتی ھے ھمارے پیچھے تو چل لیکن یہ تحقیق مین اپنا نہین ھمارا نام سامنے رکھ دوستو یہ سب کچھ اس لئے لکھا ھے تاکہ آپ کو جدید طریقہ سمجھنے مین ابہام نہ رھے اب بات کرتے ھین قوام آلہ کی تو نبض کی سختی اور نرمی کو قوام آلہ کہتے ھین اس کے تحت بھی تین نبضین ھین صلب ۔۔لین ۔۔۔معتدل
صلب۔۔۔ایسی نبض جو نباض کی انگلیون کے پورون کو سخت محسوس ھو ایسی نبض خشکی پر دلالت کرتی ھے سخت سے مراد تنی ھوئی جس مین لچک کم ھو یہ دلالت مرض رعشہ ذات الریہہ ۔۔امراض گردہ ۔۔تصغیر القلب عموما ویاگرہ کھانے کے بعد یہی نبض ھوا کرتی ھے ان پہ دلالت کرتی ھے ھان اگر مریض کی عمر پچاس سال سے زیادہ ھو تو ایسی نبض نظر آۓ تو سمجھ لین وہ مریض یا تو آتشک مین مبتلا ھے یا شراب نوشی کا عادی ھے نظریہ مفرداعضاء کے تحت یہ نبض عضلاتی ھے
لیّن نبض ۔۔۔۔ایسی نبض جو نرم ھو یعنی صلب کے بالکل الٹ والی نبض ھو تو یہ کثرت رطوبات کا اظہار کرتی ھے جس سے خون کی کمی اندرونی زخم شوگر جیسی امراض مین ھوا کرتی ھے نظریہ کے تحت یہ اعصابی نبض ھے
معتدل ۔۔اب آپ جان ھی گئے ھونگے مین نے کیا لکھنا ھے۔۔جی ھان نہ نبض سخت ھو نہ ھی نرم یعنی درمیان والی ھو اسے یاد رکھین متوسط نبض بھی کہتے ھین یہ نظریہ کے تحت غدی نبض ھے جبکہ طب قدیم اسے معتدل نبض کہتی ھے اب لفظ اور اصطلاح معتدل پہ آپ سوچتے ھی ھونگے کہ ھر قانون مین ساتھ قسمون کے رائج ھے لیکن کردار کچھ بھی نہین ھے یہی تو مسائل ھین طب قدیم کے ساتھ جو آھستہ آھستہ آپ کو سمجھ آئین گے اور ان کا حل بھی آپ کو بتایا جاۓ گا پریشان نہین ھونا اب تھوڑی تشریح کردیتے ھین
دستور کے مطابق نباض مریض کی نبض پہ انگلیوں کے پورے رکھے اگر انگلیان رکھتے ھی نبض سخت اور تنی ھوئی معلوم ھو تو صلب نبض ھے تو دبانے سے آپ کے پورون کے نیچے سے بے شک پھسل جاۓ لیکن اپنا تناؤ نہ چھوڑے تو یہ نبض صلب ھے اگر نرم ملائم آسانی سے دب جانے والی یا ڈھیلی نبض محسوس ھو تو یہ لین ھے اب نہ تو زیادہ تنی ھو نہ ھی زیادہ نرم ھو درمیان والی ھو تو معتدل نبض ھے
نوٹ۔۔کچھ موازنہ پہلے سے پڑھی ھوئی نبض سریع بطی اب صلب و لین پہ غور کرین باقی مضمون اگلی قسط مین
No comments:
Post a Comment