۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔۔قسط نمبر 61۔۔۔
پچھلی قسط مین بات ندامت پہ ختم کی تھی آج ھم بحث غم پہ کرین گے کہ غم ھے کیا؟
یہ ایک ایسی کیفیت ھے جسے نفس کی کسی ایک کیفیت سے متعلق قرار دینا مشکل ھے اس لئے کہ یہ کیفیت حقیقی اور غیر حقیقی دو طرح سے اپنے اثرات مرتب کرتی ھے
حضرت صابر ملتانیؒ اپنی کتاب جنسی امراض وعلاج صفحہ 59پہ لکھتے ھین کہ غم کی کیفیت انقباض قلب سے رونما ھوتی ھے اور انقباض قلب کی کیفیت کو سوداوی یا عضلاتی تحریک گردانا جاتا ھے اور یہ کہ اس تحریک مین جسم انسانی مین سوداوی مادہ کیمیائی طور پر پیدا ھوتا ھے اور مسلسل خون مین سرایت کرتا رھتا ھے اس لئے مادہ اپنے منافذ سے جاری نہین ھوتا اس لئے معمول کا رنگ سیاہ ھو جاتا ھے اب ان الفاظ سے آپ کو بہت کچھ سمجھ آگیا ھو گا اب تھوڑی بات ھم کائینات کی سب سے بڑی کتاب یعنی قرآن الحکیم سے کرتے ھین
اللہ تعالی قرآن مجید مین سورة النمل مین آیت نمبر 58 مین فرماتے ھین
اور جب ان (کفار )مین سے کسی کو بیٹی کے پیدا ھونے کی خبر ملتی ھے تو اس کا منہ غم کے سبب کالا پڑ جاتا ھے اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہناک ھو جاتا ھے ۔۔۔
اس آیت مبارکہ سے ھمین یہ اشارہ ملتا ھے کہ کفار مین بیک وقت دو جذبے متحرک ھوتے تھے
پہلا جذبہ۔۔۔ بیٹی کے پیدا ھونے کا غم
دوسرا جذبہ۔۔۔ بیٹی کے پیدا ھونے کا غصہ
اور آپ لوگون نے ایک عام فقرہ سن رکھا ھے کہ فلان شخص اس وقت غم وغصہ کی کیفیت مین مبتلا ھے مثلا جیسے کسی کا کوئی قتل ھو جاۓ تو مرنے والا کا غم اور مارنے والے پہ غصہ
اب آپ کو اندازہ ھو گیا ھو گا کہ یہ کیفیت کب پیدا ھوتی ھے اور یہ کیفیت کیا ھوتی ھے
آپ یہ بات یاد رکھین جب غم اور غصہ کے اختلال سے جو کیفیت پیدا ھوتی ھے اب اس مین چہرہ کا رنگ سیاھی پکڑ لیتا ھے اور یاد رکھین اس غم کو یا اس کیفیت کو ھم غیر حقیقی غم کہین گے
( نوٹ) کچھ اصحاب کا شکوہ اور کچھ کی خواھش کا احترام کیا ھے آج خیر مضمون تو پہلے بھی دلائل اور حقائق اور حوالہ جات سے ھی لکھتا ھون لیکن صفحات اور کتابون کی نشاندھی نہین کرتا تھا آج کچھ اس لئے چیدہ چیدہ حوالے لکھ رھا ھون تاکہ آپ کو اندازہ ھو سکے کہ حقیقت مین ایک مضمون لکھنے مین کتنے مطالعہ کی ضرورت ھوتی ھے ایک صاحب نے تو دو دن پہلے ایک کمنٹس مین یہ لکھ رکھا تھا کہ بھٹہ صاحب نے کبھی بھی امراض کی تشخيص علامات یا کیفیات کے تحت کبھی بھی نہین لکھا میری حیران رہ گیا اس بے وقوف کی بات پہ جسے یہ تک علم نہین کہ گروپ مطب کامل مین مین ساٹھ اقساط تشخيص امراض وعلامات پہ لکھ چکا ھون ابھی شاید اتنی اور لکھنی پڑین گی کچھ اندازہ نہین مجھے خود بھی کہ اور کتنا لکھنے سے مضمون کا پیٹ بھرے گا
ایسے لا یعقل بھی فتوہ لگانے سے گریز نہین کرتے خیر چھوڑین اس بات کو مجھ پہ یہ مذکورہ بالا کیفیت پیدا نہین ھوئی جس مین غم اور غصہ شامل ھو بلکہ مجھ پہ ان صاحب کی اس حرکت سے ایک نئی کیفیت پیدا ھوئی تھی جسے آپ شاعرانہ کیفیت کہہ سکتے ھین جس مین وہ غم کا اظہار بھی کرتا ھے اور ھنستا بھی ھے آپ جانتے ھین کیون؟
بھئی اس لئے کہ پہلے غم پیدا ھوا کہ محبوبہ نہین ملی اور ہھر جب اسے پتہ چلتا ھے کہ یہ تو صرف تخیّل تھا تو آنسو بھی آتے ھین اور ھنستا بھی ھے ۔۔اب مین اس کی وضاحت نہین کرون گا آپ سمجھ ھی گئے ھونگے یہ ایک لطیفیاتی کیفیت کا نام دے سکتے ھین چلین اب اپنے مضمون کی طرف چلتے ھین
تو مین بتا رھا تھا کہ غم کی دوسری قسم ( حقیقی غم) کی ھوتی ھے
حقیقی غم یاد رکھین داخلی عمل سے وارد ھوتا ھے کہ معمول کا عضلاتی نظام ماند پڑتے ھوۓ تحلیل ھونے لگتا ھے اور اس کی کارکردگی کمزوری کے شکنجہ مین گرفتار ھوجاتی ھے یاد رکھین جب عضلاتی تحلیل ھو گی تو غدی یعنی صفراوی نظام متحرک ھو گا اور اپنی نوع کے خلیات بکثرت پیدا کرے گا
اب ایسے مین تحریک وتحلیل کے عوامل سے غدی یعنی صفراوی مجاری بھی رطوبات کو کنٹرول کرنے سے عاری ھون گے لہذا معمول کے جسم کا رنگ زرد ھو گا اب صاف ظاھر ھے نتیجتًا کیفیت غدی اعصابی ھو گی خوف خدا مین منزل کو نہ پانے کا غم بھی ایسی ھی کیفیت پیدا کرتا ھے جسے حقیقی غم کہنا بے جا نہ ھو گا
بعض علماء نے غم کی تشریح کچھ یون کی ھے
غم دوقسم کا ھوتا ھے ایک وہ غم جو اچانک پیدا ھوتا ھے اس سے چہرہ زرد ھوتا ھے یہ غم بروقت یعنی دفعتًہ ڈرنے سے ھوتا ھے
دوسرا غم احساس شرمندگی سے ھوتا ھے جو مستقبل مین لاحق ھونے کی فکر سے ھوتا ھے اس سے چہرہ سیاہ ھوتا ھے کیونکہ بار بار کے احساس شرمندگی سے سودا کا غلبہ ھو جاتا ھے اور یہ ایک قسم کی مرض بن جاتا ھے یعنی آئیندہ کی شرمندگی کی وجہ سے بیمار بن جاتے ھین
مین نے ایک فیملی مین تین بہنون کو دیکھا ھے تینون ھی ایک کیفیت کا شکار تھی روزانہ تینون مل کر رونے بیٹھ جاتی اور چپ ھونے کا نام ھی نہین لیتی تھی باقی مضمون آئیندہ
۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔۔قسط نمبر 61۔۔۔
پچھلی قسط مین بات ندامت پہ ختم کی تھی آج ھم بحث غم پہ کرین گے کہ غم ھے کیا؟
یہ ایک ایسی کیفیت ھے جسے نفس کی کسی ایک کیفیت سے متعلق قرار دینا مشکل ھے اس لئے کہ یہ کیفیت حقیقی اور غیر حقیقی دو طرح سے اپنے اثرات مرتب کرتی ھے
حضرت صابر ملتانیؒ اپنی کتاب جنسی امراض وعلاج صفحہ 59پہ لکھتے ھین کہ غم کی کیفیت انقباض قلب سے رونما ھوتی ھے اور انقباض قلب کی کیفیت کو سوداوی یا عضلاتی تحریک گردانا جاتا ھے اور یہ کہ اس تحریک مین جسم انسانی مین سوداوی مادہ کیمیائی طور پر پیدا ھوتا ھے اور مسلسل خون مین سرایت کرتا رھتا ھے اس لئے مادہ اپنے منافذ سے جاری نہین ھوتا اس لئے معمول کا رنگ سیاہ ھو جاتا ھے اب ان الفاظ سے آپ کو بہت کچھ سمجھ آگیا ھو گا اب تھوڑی بات ھم کائینات کی سب سے بڑی کتاب یعنی قرآن الحکیم سے کرتے ھین
اللہ تعالی قرآن مجید مین سورة النمل مین آیت نمبر 58 مین فرماتے ھین
اور جب ان (کفار )مین سے کسی کو بیٹی کے پیدا ھونے کی خبر ملتی ھے تو اس کا منہ غم کے سبب کالا پڑ جاتا ھے اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہناک ھو جاتا ھے ۔۔۔
اس آیت مبارکہ سے ھمین یہ اشارہ ملتا ھے کہ کفار مین بیک وقت دو جذبے متحرک ھوتے تھے
پہلا جذبہ۔۔۔ بیٹی کے پیدا ھونے کا غم
دوسرا جذبہ۔۔۔ بیٹی کے پیدا ھونے کا غصہ
اور آپ لوگون نے ایک عام فقرہ سن رکھا ھے کہ فلان شخص اس وقت غم وغصہ کی کیفیت مین مبتلا ھے مثلا جیسے کسی کا کوئی قتل ھو جاۓ تو مرنے والا کا غم اور مارنے والے پہ غصہ
اب آپ کو اندازہ ھو گیا ھو گا کہ یہ کیفیت کب پیدا ھوتی ھے اور یہ کیفیت کیا ھوتی ھے
آپ یہ بات یاد رکھین جب غم اور غصہ کے اختلال سے جو کیفیت پیدا ھوتی ھے اب اس مین چہرہ کا رنگ سیاھی پکڑ لیتا ھے اور یاد رکھین اس غم کو یا اس کیفیت کو ھم غیر حقیقی غم کہین گے
( نوٹ) کچھ اصحاب کا شکوہ اور کچھ کی خواھش کا احترام کیا ھے آج خیر مضمون تو پہلے بھی دلائل اور حقائق اور حوالہ جات سے ھی لکھتا ھون لیکن صفحات اور کتابون کی نشاندھی نہین کرتا تھا آج کچھ اس لئے چیدہ چیدہ حوالے لکھ رھا ھون تاکہ آپ کو اندازہ ھو سکے کہ حقیقت مین ایک مضمون لکھنے مین کتنے مطالعہ کی ضرورت ھوتی ھے ایک صاحب نے تو دو دن پہلے ایک کمنٹس مین یہ لکھ رکھا تھا کہ بھٹہ صاحب نے کبھی بھی امراض کی تشخيص علامات یا کیفیات کے تحت کبھی بھی نہین لکھا میری حیران رہ گیا اس بے وقوف کی بات پہ جسے یہ تک علم نہین کہ گروپ مطب کامل مین مین ساٹھ اقساط تشخيص امراض وعلامات پہ لکھ چکا ھون ابھی شاید اتنی اور لکھنی پڑین گی کچھ اندازہ نہین مجھے خود بھی کہ اور کتنا لکھنے سے مضمون کا پیٹ بھرے گا
ایسے لا یعقل بھی فتوہ لگانے سے گریز نہین کرتے خیر چھوڑین اس بات کو مجھ پہ یہ مذکورہ بالا کیفیت پیدا نہین ھوئی جس مین غم اور غصہ شامل ھو بلکہ مجھ پہ ان صاحب کی اس حرکت سے ایک نئی کیفیت پیدا ھوئی تھی جسے آپ شاعرانہ کیفیت کہہ سکتے ھین جس مین وہ غم کا اظہار بھی کرتا ھے اور ھنستا بھی ھے آپ جانتے ھین کیون؟
بھئی اس لئے کہ پہلے غم پیدا ھوا کہ محبوبہ نہین ملی اور ہھر جب اسے پتہ چلتا ھے کہ یہ تو صرف تخیّل تھا تو آنسو بھی آتے ھین اور ھنستا بھی ھے ۔۔اب مین اس کی وضاحت نہین کرون گا آپ سمجھ ھی گئے ھونگے یہ ایک لطیفیاتی کیفیت کا نام دے سکتے ھین چلین اب اپنے مضمون کی طرف چلتے ھین
تو مین بتا رھا تھا کہ غم کی دوسری قسم ( حقیقی غم) کی ھوتی ھے
حقیقی غم یاد رکھین داخلی عمل سے وارد ھوتا ھے کہ معمول کا عضلاتی نظام ماند پڑتے ھوۓ تحلیل ھونے لگتا ھے اور اس کی کارکردگی کمزوری کے شکنجہ مین گرفتار ھوجاتی ھے یاد رکھین جب عضلاتی تحلیل ھو گی تو غدی یعنی صفراوی نظام متحرک ھو گا اور اپنی نوع کے خلیات بکثرت پیدا کرے گا
اب ایسے مین تحریک وتحلیل کے عوامل سے غدی یعنی صفراوی مجاری بھی رطوبات کو کنٹرول کرنے سے عاری ھون گے لہذا معمول کے جسم کا رنگ زرد ھو گا اب صاف ظاھر ھے نتیجتًا کیفیت غدی اعصابی ھو گی خوف خدا مین منزل کو نہ پانے کا غم بھی ایسی ھی کیفیت پیدا کرتا ھے جسے حقیقی غم کہنا بے جا نہ ھو گا
بعض علماء نے غم کی تشریح کچھ یون کی ھے
غم دوقسم کا ھوتا ھے ایک وہ غم جو اچانک پیدا ھوتا ھے اس سے چہرہ زرد ھوتا ھے یہ غم بروقت یعنی دفعتًہ ڈرنے سے ھوتا ھے
دوسرا غم احساس شرمندگی سے ھوتا ھے جو مستقبل مین لاحق ھونے کی فکر سے ھوتا ھے اس سے چہرہ سیاہ ھوتا ھے کیونکہ بار بار کے احساس شرمندگی سے سودا کا غلبہ ھو جاتا ھے اور یہ ایک قسم کی مرض بن جاتا ھے یعنی آئیندہ کی شرمندگی کی وجہ سے بیمار بن جاتے ھین
مین نے ایک فیملی مین تین بہنون کو دیکھا ھے تینون ھی ایک کیفیت کا شکار تھی روزانہ تینون مل کر رونے بیٹھ جاتی اور چپ ھونے کا نام ھی نہین لیتی تھی باقی مضمون آئیندہ
No comments:
Post a Comment