۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات۔۔۔قسط نمبر 69۔۔۔
ذاتی وجوھات کی وجہ سے کچھ دنون سے اس مضمون کا تسلسل ٹوٹا ھوا ھے کوشش ھو گی کہ اب یہ تسلسل نہ ٹوٹنے پاۓ کیونکہ جیسے جیسے مضمون آگے جا رھا ھے مضمون کی گہرائی بھی بڑھتی جارھی ھے آج مضمون کو قارورے کے باب مین داخل کرنے لگا ھون مرض کی تشخيص کےلئے طب مین قارورہ کی ھمیشہ سے بہت زیادہ اھمیت رھی ھے قدیم اطباء نبض کے ساتھ قارورہ دیکھ کر فیصلہ کرنا فرض سمجھتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نااھلی کی وجہ سے طبیب حضرات نے قارورہ دیکھنا بند کردیا بلکہ کچھ عرصہ پہلے مین نے ایک گروپ مین قارورہ پہ لکھا مضمون پڑھا جس مین قارورہ دیکھنا سب سے بڑی جہالت قرار دیا گیا تھا بلکہ یہان تک لکھا تھا پیشاب دیکھ دیکھ کر پھر سونگھ کر ان حکیمون کے دماغون مین بھی پیشاب بھر گیا تھا
یہ قدیم اطباء کی ذات پہ فتوہ تھا۔۔۔
نہایت ھی افسوس ھوا یہ سب پڑھ کے ۔۔۔
حقیقت تو یہ ھے پروین شاکر کے شعر کی طرح
بات تو سچ ھے مگر بات ھے رسوائی کی۔۔
کی طرح قدیم اطباء نے قارورہ پہ رنگ کی حد تک تو لکھ دیا کہ فلان رنگ قارورہ کا فلان خلط کو ظاھر کرتا ھے لیکن وسیع تجربات بلکہ اٹل فیصلے لکھنے سے گریز کیا جیسے تاریخ طب مین بعض اطباء کی داستانین تشخيص پہ لکھی گئی ھین کہ فلان حکیم صاحب نے قارورہ دیکھ کر یہ فتوہ مرض لگایا تھا اب ان داستانون کا موجودہ دور کے اطباء کو کیا فائدہ ھو سکتا ھے بلکہ سواۓ افسوس کے اور کچھ بھی نہین کیا جا سکتا انشاءاللہ کوشش ھو گی اس موضوع پہ آپ کو وہ کچھ بتا سکون جو طبی کتب مین درج نہین ھے یعنی وہ شکوہ دور کرنے کی کوشش ھو گی جو اجداد کی شکل مین طب کو ملا ھے
یاد رکھین قارورہ کی اھمیت آج بھی مسلمہ ھے حکماء اپنی نا سمجھی مین تو اس سے گریز کرنے لگے لیکن طب ایلوپیتھی نے اس پہ بہترین تشریحات وتجربات کیے آج ایلوپیتھی کا زیادہ انحصار قارورہ اور بلڈ ٹیسٹ رپورٹ پہ ھی ھوتا ھے نظریہ مفرداعضاء نے بھی قارورہ پہ بہت ھی اعلی دلائل اور تجربات کیے ھین اور کافی حد تک آسانیان پیدا کی ھین انشاءاللہ اس سلسلہ مین قارورہ کی ھر طرح تشریح کی جاۓ گی لیکن اس سے پہلے یہ سمجھنا بہت ضروری ھے کہ درحقیقت قارورہ ھے کیا؟ اور اس بھی پہلے ایک سوال جسے مین ھی آپ سے کیے دیتا ھون کہ قارورہ کا تعلق تو زندگی سے ھے اب بے جان تو قارورہ پیدا نہین کرسکتا آپ پہلے زندگی کی تشریح کرین تو دوستو حقیقت مین قارورہ کا مفہوم پیدائش سمجھنے اور امراض سے اس کا کیا تعلق ھے مختصر اس پہ لکھون گا مذید سمجھنے کے لئے اناٹومی اور فزیالوجی پڑھین
اب بات سمجھین ۔۔ جاندار اور بے جان مین یون تمیز کی جا سکتی ھے کہ وہ خواص جو مادہ حیات یعنی protoplasmمین پاۓ جاتے ھین جن سے ھر جاندار بنتا ھے یعنی زندگی کی نشانیان ھین انہین سامنے رکھین تو دوستو جاندارون مین سرانجام پانے والے بڑے امتیازی افعال مندرجہ ذیل ھین
میٹابولزمmetabolism
نشوونماgrowth
حساسیتlrritability
افزائش نسلreproduction
حرکتmovement
غذائیتnurition
عمل تنفسrespiration
عمل اخراجexcretion
تمام جاندارون کے جسم اور ھر خلیے مین ھمہ وقت ایک خاص ترتیب سے کیمیائی تعاملات جاری رھتے ھین اور یہ اعمال جاندار کی ھئیت structureبرقرار رکھنے اور افعال زندگی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے از حد ضروری ھے
ان مین بعض توانائی پیدا کرتے ھین تو کچھ نئے مادہ حیات کو جنم دیتے ھین اور کچھ آپ کے جسم کی مرمت کرتے ھین تو کچھ آپ کے جسم سے رطوبات کے اخراج اور انہین خاص مقامات تک پہنچانے کے لئے ضروری ھین اب ان سب کیمیائی اعمال کو مجموعی طور پہ آپ میٹابولزم یا استحالہ یا تحویل کہتے ھین یعنی میٹا بولزم کے ذریعے ھی جسم مین نیا پروٹو پلازم بنتا سنورتا اور توانائی پیدا کرتا ھے
یاد رکھین میٹابولزم دو طرح کا ھوتا ھے ایک تعمیری ھوتا ھے تو ایک تخریبی ھوتا ھے یعنی تعمیری اعمال مین تمام مادے بنتے ھین جن کی آپ کے جسم کو ضرورت ھے جبکہ ان مادون کی توڑ پھوڑ اور ذخیرہ شدہ خوراک کی توڑ پھوڑ کاعمل میٹابولزم کاتخریبی حصہ ھے مثلا ھمارے جسم مین پروٹین شکر اور روغنیات بنتے اور جسم وخلیات کا حصہ بننے کا عمل تعمیری کہلاۓ گا اور انکی ٹوٹ پھوٹ کو ھم تخریبی کہتے ھین یاد رکھین تخریبی عمل مین توانائی ہیدا ھوتی ھے لیکن ساتھ مین بہت سے زھریلے بیکار یعنی فاسد مادے اور مرکبات بھی بن جاتے ھین جن کا جسم سے اخراج بہت ضروری ھوتا ھے اور جسم ان اجزاء کو کئی اعضا اور راستون سے خارج کرتا ھے جیسے جلد سے پانی اور نمکیات اور دیگر فضلات خارج ھوتے ھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ آپ پھیپھڑوں کے ذریعے خارج کرتے ھین
پروٹین اور کاربوھائیڈریٹ اور چکنائیون کے استحالے کے دوران بننے والے بیشتر مادے پیشاب کے راستے خارج ھوتے ھین اور انہین خون جسم کے اعضاء سے گردون تک پہنچاتا ھے باقی آئیندہ
۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات۔۔۔قسط نمبر 69۔۔۔
ذاتی وجوھات کی وجہ سے کچھ دنون سے اس مضمون کا تسلسل ٹوٹا ھوا ھے کوشش ھو گی کہ اب یہ تسلسل نہ ٹوٹنے پاۓ کیونکہ جیسے جیسے مضمون آگے جا رھا ھے مضمون کی گہرائی بھی بڑھتی جارھی ھے آج مضمون کو قارورے کے باب مین داخل کرنے لگا ھون مرض کی تشخيص کےلئے طب مین قارورہ کی ھمیشہ سے بہت زیادہ اھمیت رھی ھے قدیم اطباء نبض کے ساتھ قارورہ دیکھ کر فیصلہ کرنا فرض سمجھتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نااھلی کی وجہ سے طبیب حضرات نے قارورہ دیکھنا بند کردیا بلکہ کچھ عرصہ پہلے مین نے ایک گروپ مین قارورہ پہ لکھا مضمون پڑھا جس مین قارورہ دیکھنا سب سے بڑی جہالت قرار دیا گیا تھا بلکہ یہان تک لکھا تھا پیشاب دیکھ دیکھ کر پھر سونگھ کر ان حکیمون کے دماغون مین بھی پیشاب بھر گیا تھا
یہ قدیم اطباء کی ذات پہ فتوہ تھا۔۔۔
نہایت ھی افسوس ھوا یہ سب پڑھ کے ۔۔۔
حقیقت تو یہ ھے پروین شاکر کے شعر کی طرح
بات تو سچ ھے مگر بات ھے رسوائی کی۔۔
کی طرح قدیم اطباء نے قارورہ پہ رنگ کی حد تک تو لکھ دیا کہ فلان رنگ قارورہ کا فلان خلط کو ظاھر کرتا ھے لیکن وسیع تجربات بلکہ اٹل فیصلے لکھنے سے گریز کیا جیسے تاریخ طب مین بعض اطباء کی داستانین تشخيص پہ لکھی گئی ھین کہ فلان حکیم صاحب نے قارورہ دیکھ کر یہ فتوہ مرض لگایا تھا اب ان داستانون کا موجودہ دور کے اطباء کو کیا فائدہ ھو سکتا ھے بلکہ سواۓ افسوس کے اور کچھ بھی نہین کیا جا سکتا انشاءاللہ کوشش ھو گی اس موضوع پہ آپ کو وہ کچھ بتا سکون جو طبی کتب مین درج نہین ھے یعنی وہ شکوہ دور کرنے کی کوشش ھو گی جو اجداد کی شکل مین طب کو ملا ھے
یاد رکھین قارورہ کی اھمیت آج بھی مسلمہ ھے حکماء اپنی نا سمجھی مین تو اس سے گریز کرنے لگے لیکن طب ایلوپیتھی نے اس پہ بہترین تشریحات وتجربات کیے آج ایلوپیتھی کا زیادہ انحصار قارورہ اور بلڈ ٹیسٹ رپورٹ پہ ھی ھوتا ھے نظریہ مفرداعضاء نے بھی قارورہ پہ بہت ھی اعلی دلائل اور تجربات کیے ھین اور کافی حد تک آسانیان پیدا کی ھین انشاءاللہ اس سلسلہ مین قارورہ کی ھر طرح تشریح کی جاۓ گی لیکن اس سے پہلے یہ سمجھنا بہت ضروری ھے کہ درحقیقت قارورہ ھے کیا؟ اور اس بھی پہلے ایک سوال جسے مین ھی آپ سے کیے دیتا ھون کہ قارورہ کا تعلق تو زندگی سے ھے اب بے جان تو قارورہ پیدا نہین کرسکتا آپ پہلے زندگی کی تشریح کرین تو دوستو حقیقت مین قارورہ کا مفہوم پیدائش سمجھنے اور امراض سے اس کا کیا تعلق ھے مختصر اس پہ لکھون گا مذید سمجھنے کے لئے اناٹومی اور فزیالوجی پڑھین
اب بات سمجھین ۔۔ جاندار اور بے جان مین یون تمیز کی جا سکتی ھے کہ وہ خواص جو مادہ حیات یعنی protoplasmمین پاۓ جاتے ھین جن سے ھر جاندار بنتا ھے یعنی زندگی کی نشانیان ھین انہین سامنے رکھین تو دوستو جاندارون مین سرانجام پانے والے بڑے امتیازی افعال مندرجہ ذیل ھین
میٹابولزمmetabolism
نشوونماgrowth
حساسیتlrritability
افزائش نسلreproduction
حرکتmovement
غذائیتnurition
عمل تنفسrespiration
عمل اخراجexcretion
تمام جاندارون کے جسم اور ھر خلیے مین ھمہ وقت ایک خاص ترتیب سے کیمیائی تعاملات جاری رھتے ھین اور یہ اعمال جاندار کی ھئیت structureبرقرار رکھنے اور افعال زندگی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے از حد ضروری ھے
ان مین بعض توانائی پیدا کرتے ھین تو کچھ نئے مادہ حیات کو جنم دیتے ھین اور کچھ آپ کے جسم کی مرمت کرتے ھین تو کچھ آپ کے جسم سے رطوبات کے اخراج اور انہین خاص مقامات تک پہنچانے کے لئے ضروری ھین اب ان سب کیمیائی اعمال کو مجموعی طور پہ آپ میٹابولزم یا استحالہ یا تحویل کہتے ھین یعنی میٹا بولزم کے ذریعے ھی جسم مین نیا پروٹو پلازم بنتا سنورتا اور توانائی پیدا کرتا ھے
یاد رکھین میٹابولزم دو طرح کا ھوتا ھے ایک تعمیری ھوتا ھے تو ایک تخریبی ھوتا ھے یعنی تعمیری اعمال مین تمام مادے بنتے ھین جن کی آپ کے جسم کو ضرورت ھے جبکہ ان مادون کی توڑ پھوڑ اور ذخیرہ شدہ خوراک کی توڑ پھوڑ کاعمل میٹابولزم کاتخریبی حصہ ھے مثلا ھمارے جسم مین پروٹین شکر اور روغنیات بنتے اور جسم وخلیات کا حصہ بننے کا عمل تعمیری کہلاۓ گا اور انکی ٹوٹ پھوٹ کو ھم تخریبی کہتے ھین یاد رکھین تخریبی عمل مین توانائی ہیدا ھوتی ھے لیکن ساتھ مین بہت سے زھریلے بیکار یعنی فاسد مادے اور مرکبات بھی بن جاتے ھین جن کا جسم سے اخراج بہت ضروری ھوتا ھے اور جسم ان اجزاء کو کئی اعضا اور راستون سے خارج کرتا ھے جیسے جلد سے پانی اور نمکیات اور دیگر فضلات خارج ھوتے ھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ آپ پھیپھڑوں کے ذریعے خارج کرتے ھین
پروٹین اور کاربوھائیڈریٹ اور چکنائیون کے استحالے کے دوران بننے والے بیشتر مادے پیشاب کے راستے خارج ھوتے ھین اور انہین خون جسم کے اعضاء سے گردون تک پہنچاتا ھے باقی آئیندہ
No comments:
Post a Comment