۔۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Causes of kidney failure
۔۔۔۔۔۔گردے فیل ھوجانا کیون اور کیسے؟۔۔۔۔قسط3۔۔
کل کی پوسٹ مین بات علامات پہ ختم کی تھی کہ بدن مین کونسی علامات پیدا ھوتی ھین جن سے پتہ چل سکے کہ گردے فیل ھورھے ھین تو ابتدا مین مندرجہ ذیل علامات ظاھر ھوتی ھین
پیشاب بہت کم یا بننا ھی بند ھوجاتا ھے
بن (یوریا )۔۔۔کریاٹی نین ۔۔پوٹاشیم ۔۔۔فاسفورس خون مین بڑھ جاتے ھین
کیلشیم اور البیومن کم ھوجاتی ھین
تھکن اور کمزوری اور پٹھون کا کھنچاؤ۔۔ متلی ۔ قے ۔ یاداشت کی خرابی ۔ وھم ۔ غشی ۔ بے ھوشی ۔ وغیرہ کی شکایات پیدا ھوتی ھین
پوٹاشیم بڑھنے سے دل بند ھوسکتا ھے بعض اوقات بلڈ پریشر بڑھ جاتا ھے
یہ تھی ابتدا مین علامات
اب ان کا لیبارٹری ٹیسٹ باربار کیاجاتا ھے اور ان مقدارون کو نارمل رکھنے کی کوشش کی جاتی ھے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ھے کہ جسم مین پانی کی مقدار نہ بڑھنے پاۓ وہ اس لئے کہ پیشاب تو خارج ھو نہین رھا ھوتا ۔۔۔اب پیشاب خارج نہ ھونے کی وجہ سے پانی دل اور پھیپھڑوں مین اکٹھا ھوکر موت واقع ھوجایا کرتی ھے اب اس وجہ سے مریض کو پہلی احتیاط یہ کرائی جاتی ھے کہ جتنا پیشاب آرھا ھے اتنا ھی پانی پلایا جاتا ھے اور خون مین تیزابیت کو کنٹرول کرنے کے لئے سوڈابائی کارب دیاجاتا ھے لیکن اس سوڈابائی کارب کے استعمال سے جسم مین کیلشیم کی مقدار کم ھوجایا کرتی ھے اس وجہ سے تشنج کے پڑنے شروع ھوجاتے ھین یعنی ایک مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرتے کرتے دوسری مصیبت مین مریض مبتلا ھوجایاکرتا ھے اور ضرورت کے مطابق پیشاب خارج کرنے کے لئے پیشاب آور ادویات جیسے لاسکس یا فرسامائیڈ دی جاتی ھین اور حکماء حضرات قلمی شورہ دے دیا کرتے ھین لیکن یہ سب غلط اصول ھین کیسے غلط ھے اب اس بات کو سمجھ لین دراصل گردے پیشاب بنا ھی نہین پاتے جب پیشاب بن ھی نہین رھا تو پیشاب آور دوا کا فائدہ کیا ؟ جبکہ معالج یہ سمجھتے ھین کہ گردے پیشاب خارج نہین کررھے ۔ یاد رکھین پیشاب بنانا الگ چیز ھے پیشاب خارج کرنا الگ فعل ھے اس بات کو مین پہلے بھی سمجھا چکا ھون اور کونسا نظام پیشاب بناتا ھے اور کونسا نظام پیشاب خارج کرتا ھے اس تقسیم کو ھمیشہ ذھن مین رکھنا ھے اب ایک ڈاکٹر پیشاب آور دوا لاسکس کیون استعمال کرتا ھے تو وہ بدن مین پانی کی مقدار کم کرنے کےلئے اسے استعمال کرتا ھے اب ایلومین کوئی ایسی دوا یا نظام نہین ھے جس سے اس نظام کو متحرک کیا جاسکے جس سے پیشاب بن سکے اور پھر خارج ھوسکے الحمداللہ طب مین ایسی ادویات موجود ھین جو ان نظامون کو باآسانی متحرک کرسکتی ھین اب اس بات کو بھی ذھن مین رکھین کہ شروع مرض مین تو گردے پیشاب بناتے ھی نہین لیکن بعد از مرض مکمل پیدا ھونے کے بعد پیشاب بہت زیادہ بنتا ھے لیکن وہ گاڑھا نہین ھوتا جیسے پیشاب کا قوام ھونا چاھیے بلکہ پتلا ھوتا ھے یعنی اس مرحلہ مین پوٹاشیم کی کمی واقع ھوچکی ھوتی ھے چنانچہ الیکٹرولائٹس کو حداعتدال پہ رکھنے کے لئے باربار چیک کیا جاتا ھے
اب مرض پرانی ھونے کی صورت مین کیا ھوتا ھے اب اس بات کو بھی سمجھ لین
گردون کے فیل ھوجانے کی علامات کئی ھفتے یا کچھ ماہ گزرنے کے بعد ظاھر ھوا کرتی ھین سچ یہ ھے کہ ھماری قوم اپنی فطری لا پرواھی کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی علامات مرض پہ توجہ ھی نہین دیتی جیسے بدن مین مسلسل تھکاوٹ بڑھ رھی ھے یا اعصاب کمزور محسوس ھورھے ھین اب ان کا علاج عموما گھریلو طور پہ بندہ خود ھی کرتا رھتا ھے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانے کی ضرورت محسوس ھی نہین کرتا بلکہ عموما مریض قریب المرگ ھونے کی صورت مین معالج کے پاس لایا جاتا ھے اب بالکل اسی طرح گردون فیل ھونے کی صورت مین بندہ لاپرواھی کا شکار ھوتا ھے اور مرض کی تشخيص آخر دم مین ھوتی ھے اب تک مندرجہ ذیل علامتین ظاھر ھوچکی ھوتی ھین
مریض تھکاوٹ کمزوری ۔ جلد پہ خارش ۔ متلی ۔ یا قے ۔ ھچکیان ۔ یاداشت کی خرابی ۔ اینیمیا ۔ ھڈیون کی کمزوری ۔ دل ودماغ مین پانی اکٹھا ھونا ۔ نظام انہظام مین باربار جریان خون ھونا ۔ بلڈپریشر کا بڑھ جانا ۔ اب اس نوبت مین پروٹینی خوراک بند نمک بند پانی کی مقدار کم کرنا مجبوری بن جاتی ھے
اور خون مین اتنے زھریلے مواد اکھٹے ھوچکے ھوتے ھین کہ ڈاکٹر کے پاس اب سواۓ گردے واش یعنی ڈایالے سس کرنے کے سوا کوئی چارہ نہین ھوتا یہ شروع مین تو مہینہ مین ایک بار ھوتا ھے پھر ماہ مین دوبار پہ نوبت آجاتی ھے پھر ھفتہ وار بلکہ ھر تیسرے روز پہ بات آجاتی ھے اور گردہ تبدیلی کے بغیر کوئی چارہ نہین ھوتا یاد رھے گردہ تبدیلی کے بعد بھی دوائین جاری رھتی ھین وگرنہ یہی مواد دوبارہ بڑھ کر نوبت دوبارہ گردہ تبدیلی پہ آجاتی ھے اور یہ نوبت ننانوے فیصد آھی جاتی ھے اسکی مثال مین یون بھی دے سکتا ھون کہ میرے ایک دوست ڈاکٹر جو منڈی بہاوالدین ڈسٹرک ھیڈ کواٹر ھسپتال کےانچارج بھی رھے خود اس مرض کا شکار ھوۓ اور تین دفعہ گردہ تبدیل ھوا چوتھی بار بار بھی نوبت آگئی لیکن اس سے پہلے ھی وفات پاگئے میرا اور ڈاکٹر صاحب کا بچپن سے آخردم تک وقت ایک ساتھ گزرا بس ان کی زندہ دلی اور یادین باقی رہ گئی ھین آج دس سال سے زیادہ عرصہ ھوگیا ھے یہی تحریک گردے کی تحقیق کا سبب بنی اللہ تعالی سب کو اس مرض سے بچاۓ جو مبتلا ھین انہین صحت عطافرمائے آمین باقی مضمون کل
۔۔۔۔۔۔گردے فیل ھوجانا کیون اور کیسے؟۔۔۔۔قسط3۔۔
کل کی پوسٹ مین بات علامات پہ ختم کی تھی کہ بدن مین کونسی علامات پیدا ھوتی ھین جن سے پتہ چل سکے کہ گردے فیل ھورھے ھین تو ابتدا مین مندرجہ ذیل علامات ظاھر ھوتی ھین
پیشاب بہت کم یا بننا ھی بند ھوجاتا ھے
بن (یوریا )۔۔۔کریاٹی نین ۔۔پوٹاشیم ۔۔۔فاسفورس خون مین بڑھ جاتے ھین
کیلشیم اور البیومن کم ھوجاتی ھین
تھکن اور کمزوری اور پٹھون کا کھنچاؤ۔۔ متلی ۔ قے ۔ یاداشت کی خرابی ۔ وھم ۔ غشی ۔ بے ھوشی ۔ وغیرہ کی شکایات پیدا ھوتی ھین
پوٹاشیم بڑھنے سے دل بند ھوسکتا ھے بعض اوقات بلڈ پریشر بڑھ جاتا ھے
یہ تھی ابتدا مین علامات
اب ان کا لیبارٹری ٹیسٹ باربار کیاجاتا ھے اور ان مقدارون کو نارمل رکھنے کی کوشش کی جاتی ھے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ھے کہ جسم مین پانی کی مقدار نہ بڑھنے پاۓ وہ اس لئے کہ پیشاب تو خارج ھو نہین رھا ھوتا ۔۔۔اب پیشاب خارج نہ ھونے کی وجہ سے پانی دل اور پھیپھڑوں مین اکٹھا ھوکر موت واقع ھوجایا کرتی ھے اب اس وجہ سے مریض کو پہلی احتیاط یہ کرائی جاتی ھے کہ جتنا پیشاب آرھا ھے اتنا ھی پانی پلایا جاتا ھے اور خون مین تیزابیت کو کنٹرول کرنے کے لئے سوڈابائی کارب دیاجاتا ھے لیکن اس سوڈابائی کارب کے استعمال سے جسم مین کیلشیم کی مقدار کم ھوجایا کرتی ھے اس وجہ سے تشنج کے پڑنے شروع ھوجاتے ھین یعنی ایک مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرتے کرتے دوسری مصیبت مین مریض مبتلا ھوجایاکرتا ھے اور ضرورت کے مطابق پیشاب خارج کرنے کے لئے پیشاب آور ادویات جیسے لاسکس یا فرسامائیڈ دی جاتی ھین اور حکماء حضرات قلمی شورہ دے دیا کرتے ھین لیکن یہ سب غلط اصول ھین کیسے غلط ھے اب اس بات کو سمجھ لین دراصل گردے پیشاب بنا ھی نہین پاتے جب پیشاب بن ھی نہین رھا تو پیشاب آور دوا کا فائدہ کیا ؟ جبکہ معالج یہ سمجھتے ھین کہ گردے پیشاب خارج نہین کررھے ۔ یاد رکھین پیشاب بنانا الگ چیز ھے پیشاب خارج کرنا الگ فعل ھے اس بات کو مین پہلے بھی سمجھا چکا ھون اور کونسا نظام پیشاب بناتا ھے اور کونسا نظام پیشاب خارج کرتا ھے اس تقسیم کو ھمیشہ ذھن مین رکھنا ھے اب ایک ڈاکٹر پیشاب آور دوا لاسکس کیون استعمال کرتا ھے تو وہ بدن مین پانی کی مقدار کم کرنے کےلئے اسے استعمال کرتا ھے اب ایلومین کوئی ایسی دوا یا نظام نہین ھے جس سے اس نظام کو متحرک کیا جاسکے جس سے پیشاب بن سکے اور پھر خارج ھوسکے الحمداللہ طب مین ایسی ادویات موجود ھین جو ان نظامون کو باآسانی متحرک کرسکتی ھین اب اس بات کو بھی ذھن مین رکھین کہ شروع مرض مین تو گردے پیشاب بناتے ھی نہین لیکن بعد از مرض مکمل پیدا ھونے کے بعد پیشاب بہت زیادہ بنتا ھے لیکن وہ گاڑھا نہین ھوتا جیسے پیشاب کا قوام ھونا چاھیے بلکہ پتلا ھوتا ھے یعنی اس مرحلہ مین پوٹاشیم کی کمی واقع ھوچکی ھوتی ھے چنانچہ الیکٹرولائٹس کو حداعتدال پہ رکھنے کے لئے باربار چیک کیا جاتا ھے
اب مرض پرانی ھونے کی صورت مین کیا ھوتا ھے اب اس بات کو بھی سمجھ لین
گردون کے فیل ھوجانے کی علامات کئی ھفتے یا کچھ ماہ گزرنے کے بعد ظاھر ھوا کرتی ھین سچ یہ ھے کہ ھماری قوم اپنی فطری لا پرواھی کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی علامات مرض پہ توجہ ھی نہین دیتی جیسے بدن مین مسلسل تھکاوٹ بڑھ رھی ھے یا اعصاب کمزور محسوس ھورھے ھین اب ان کا علاج عموما گھریلو طور پہ بندہ خود ھی کرتا رھتا ھے ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانے کی ضرورت محسوس ھی نہین کرتا بلکہ عموما مریض قریب المرگ ھونے کی صورت مین معالج کے پاس لایا جاتا ھے اب بالکل اسی طرح گردون فیل ھونے کی صورت مین بندہ لاپرواھی کا شکار ھوتا ھے اور مرض کی تشخيص آخر دم مین ھوتی ھے اب تک مندرجہ ذیل علامتین ظاھر ھوچکی ھوتی ھین
مریض تھکاوٹ کمزوری ۔ جلد پہ خارش ۔ متلی ۔ یا قے ۔ ھچکیان ۔ یاداشت کی خرابی ۔ اینیمیا ۔ ھڈیون کی کمزوری ۔ دل ودماغ مین پانی اکٹھا ھونا ۔ نظام انہظام مین باربار جریان خون ھونا ۔ بلڈپریشر کا بڑھ جانا ۔ اب اس نوبت مین پروٹینی خوراک بند نمک بند پانی کی مقدار کم کرنا مجبوری بن جاتی ھے
اور خون مین اتنے زھریلے مواد اکھٹے ھوچکے ھوتے ھین کہ ڈاکٹر کے پاس اب سواۓ گردے واش یعنی ڈایالے سس کرنے کے سوا کوئی چارہ نہین ھوتا یہ شروع مین تو مہینہ مین ایک بار ھوتا ھے پھر ماہ مین دوبار پہ نوبت آجاتی ھے پھر ھفتہ وار بلکہ ھر تیسرے روز پہ بات آجاتی ھے اور گردہ تبدیلی کے بغیر کوئی چارہ نہین ھوتا یاد رھے گردہ تبدیلی کے بعد بھی دوائین جاری رھتی ھین وگرنہ یہی مواد دوبارہ بڑھ کر نوبت دوبارہ گردہ تبدیلی پہ آجاتی ھے اور یہ نوبت ننانوے فیصد آھی جاتی ھے اسکی مثال مین یون بھی دے سکتا ھون کہ میرے ایک دوست ڈاکٹر جو منڈی بہاوالدین ڈسٹرک ھیڈ کواٹر ھسپتال کےانچارج بھی رھے خود اس مرض کا شکار ھوۓ اور تین دفعہ گردہ تبدیل ھوا چوتھی بار بار بھی نوبت آگئی لیکن اس سے پہلے ھی وفات پاگئے میرا اور ڈاکٹر صاحب کا بچپن سے آخردم تک وقت ایک ساتھ گزرا بس ان کی زندہ دلی اور یادین باقی رہ گئی ھین آج دس سال سے زیادہ عرصہ ھوگیا ھے یہی تحریک گردے کی تحقیق کا سبب بنی اللہ تعالی سب کو اس مرض سے بچاۓ جو مبتلا ھین انہین صحت عطافرمائے آمین باقی مضمون کل
No comments:
Post a Comment