Monday, June 29, 2020

لیکٹوز الرجی || allergy

۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#allergy #herbal #lectose_allergy
۔۔۔۔ لیکٹوز الرجی ۔۔۔۔۔۔
گروپ ممبر محمد شعبان صاحب نے سوال لکھا تھا کہ دودھ یا دودھ سے بنی کوئی بھی چیز کھالی جاۓ جیسے کسٹرڈ کھیر دھی وغیرہ یا دودھ ھی پی لیاجائے تولوز موشن پیٹ گیس جیسی گڑبڑ فوری ھوجایا کرتی ھے یہ سب ایک گھنٹہ تک عمل واقع ھوجاتا ھے اور پھر پیٹ خالی ھوجاتاھے اور پھر بھوک بھی لگ جاتی ھے 
یہ بھی الرجی ھی کی ایک قسم گردانی جاتی ھے دراصل ایلوپیتھی کا ایک اصول ھے جو سیدھا سیدھا ھے کسی بھی چیز کے کھانے سے ردعمل ظاھر ھونا یا کسی بھی ماحول سے بدن پہ ردعمل ظاھر ھونا جیسے سردیون مین ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے سے ھاتھون پاؤن کی انگلیون پہ یا پورے بدن پہ خارش ھونا یا گرمی کی وجہ سے بدن پہ کوئی بھی غیر معمولی علامت ظاھر ھوجانا یا کسی مخصوص قسم کے لباس سے جسم پہ خارش ھوجانا یا فضائی آلودگی سے نزلہ زکام جیسی علامات یا بہار کے موسم مین ناک کی جھلی کا متاثر ھوکر چھنکین آنا یہان تک کہ کوئی ایسی چیز جس سے بندہ نفرت کرتا ھو وہ نظر آجاۓ اور شدید غصہ یا جنونی کیفیت پیدا ھوتی ھو یہ سب الرجی کی اقسام ھین محدود مطالعہ کے ایلوپیتھی حضرات نے نہ سمجھ مین آنے والی امراض کوبھی الرجی کے کھاتے مین ڈال دیا ھے اب تمام الرجی کی اقسام کا علاج چند ایک ادویات سے کیاجاتا ھے جس مین ڈیکسامیتھاسون یاڈیلٹاکارٹل ۔۔ یعنی کارٹی سون گروپ گروپ کی دوائین جس مین کیناکارٹ وغیرہ ھین سیلوکارٹف ھے ڈیکاڈران یا پھر ھسٹامن ٹائپ دوائین جو اے ول سے شروع ھوکر کہین سے کہین چلی جاتی ھین فنرگن ۔ انسی ڈال بیٹنی لان یا پھر سانس پہ اثرانداز ھونے کی وجہ سے انہیلر تک مستعمل ھین خیر جیسی جیسی علامات ویسی ویسی ادویات ھین اور ایک طریقہ کار یہ بھی ھے کہ الرجی کی قسم چیک کی جاتی ھے اور اس کے مطابق ویکسین بھی استعمال ھوتی ھے انشااللہ الرجی اور اسکی تمام اقسام پہ تفصیلی مضامین قسط وار لکھنا شروع کرین گے آج صرف مختصرترین لیکٹوز الرجی کابتایاھے اب اس کا علاج سمجھ لین علاج بڑا ھی آسان ھے عضلاتی غدی اور غدی عضلاتی دوائین استعمال کرین انشااللہ یہ مرض ٹھیک ھوجاتی ھے تریاق تبخیر ۔۔۔
تریاق معدہ ۔۔غدی عضلاتی شدید۔۔ جوارش تمرھندی200گرام اور جوارش جالینوس 200گرام ملا کر کھلائین اور ان مین کشتہ فولاد  ایک گرام شامل کرلین چمچ چمچ دووقت دین اب تمام دواؤن کے نسخے گروپ مین موجود ھین بار بار لکھنا ممکن نہین ھوتا

No comments:

Post a Comment