۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔تشخیص امراض وعلامات ۔۔۔۔۔۔قسط نمبر 21۔۔۔۔۔۔
پچھلی قسط مین بات یہان تک پہنچی تھی دماغ ارتقاء کی آخری شکل ھے اور اسے اللہ تعالی نے سب سے افضل مقام بھی دیا ھے اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔یہ نہ صرف انسانی جسم کے اوپر حکمرانی کرتا ھے بلکہ پوری کائینات پہ حکمرانی کرتا ھے بلکہ ھر چیز پہ حاکم اعلی ھے پچھلی قسط کے شروع مین مین نے لکھا تھا اس کے اصل دو خادم ھین ایک حکم رسان اعصاب ایک خبر رسان اعصاب بلکہ ان کا کام بھی سمجھا دیا تھا مثال مختصر ھی دی تھی اب اس مین وسعت پیدا کر لیتے ھین لیکن پہلے ذرا قلب کے اور جگر کے خادمون جن مین عضلات کے خادم ارادی عضلات اور غیر ارادی عضلاتی اور جگر وغدد کے خادم غدد ناقلہ اور غدد جاذبہ کا بھی فعل یعنی کام وتشریح ساتھ ھی ھو جاۓ
اب سمجھین ۔۔۔ مثال دی تھی کہ جسم پہ کسی بھی مقام پہ ضرب لگی تو خبر رسان اعصاب نے فورا ضرب کے احساس یا نقصان کی خبر فورا حاکم اعلی دماغ تک یہ خبر پہنچادی جیسے ھمارے نظام مین تھانہ ھوتا ھے اب اس تھانہ کے ایریا مین کہین بھی جرم ھوتا ھے تو دوستو پورے تھانہ کے ایریا مین پولیس کے مخبر ضرور پھیلے ھوتے ھین وہ فورا پولیس کو جرم کی اطلاع اور مجرم سے بھی آگاہ کرتے ھین پھر پولیس کاروائی کرکے مجرم کو گرفتار کرتی ھے بالکل اسی طرح یہ اعصاب پورے انسانی جسم کے مخبر ھوتے ھین اور یہ بدن کے تھانہ یعنی دماغ تک خبر مضروب مقام کی پہنچاتے ھین ۔۔۔نوٹ۔۔۔ یہی اعصاب ھین جب ان مین ادراکی قوت ختم ھوتی ھے تو فالج کی پہلی نشانی ظاھر ھوتی ھے آپ مفلوج حصہ کو چھوئین گے تو پتہ نہین چلتا احساس نہین ھوتا تو آپ کہتے ھین کہ فالج کی شکایت ھے ۔۔۔اب ھم بات کررھے تھے ضرب لگنے والی بات تو دماغ تک پہنچ گئی اب آگے کیا عمل ھوتا ھے اب دماغ پہلا کام یہ کرتا ھے کہ ایک حکم جاری کرتا ھے یہ حکم پہنچانے مین اب دوسرے خادم حکم رسان اعصاب نے یہ حکم بجا لانا ھوتا ھے وہ یہ حکم لے کر دل کے پاس جاتے ھین وہ اپنے خادم حرکتی عضلات تک یہ حکم اور عمل در آمد کا فرمان جاری کردیتا ھے اب عضلات فورا حرکت مین آجاتے ھین اور مضروب مقام کا دفاع کرتے ھین یہ سب عمل بہت تیزی سے سرانجام ھوتا ھے جیسے آپ خود ھی اندازہ کر لین ایک شخص کو شہد کی مکھیان مسلسل کاٹ رھی ھین تو کٹنے کی یا مضروب حصہ کی خبر مسلسل دماغ تک پہنچ رھی ھے دماغ مسلسل حکم دے رھا ھے اب حکم رسان اعصاب مسلسل حکم پاس کررھے ھین عضلات مسلسل حرکت مین ھین کبھی ھاتھ اس جگہ کبھی فلان جگہ پہ چل رھا ھے دفاع مین بھی اور حفاظت مین ذرا سوچ کر خود ھی اندازہ لگا لین کیا کیفیت ھوتی ھے اب آپ خود ھی یہ بھی سوچ لین اتنے تیز ترین اور وسیع نظام کو حرکت دینے یا زندہ رکھنے کے لئے لازمی بات ھے خوراک یا پٹرول ضرور چاھیے ھے تو یاد رکھین قدرت بڑی ھی فیاض ھے وہ اللہ ﷻ ھے وہ کبھی بھی کسی کام کو ادھورا نہین چھوڑتا یہ صفت تو انسانی ھے کہ کام کو ادھورا چھوڑ دینا خیر اللہ تعالی نے ان کی خوراک پیدا کرنے کے لئے یعنی دل ودماغ کو زندہ رکھنے کے لئے بدل ماتحیلل کے طور پر غذا کو تحلیل کرکے ان تک پہنچانے والا کام جگر کے ذمہ لگایا ھے اور آپ کو بتا چکا ھون جگر ایک بہت بڑا غدد ھے اس کے بھی دوخادم ھین غدد ناقلہ اور غدد جاذبہ اور یہ جگر کے خادم کیون ھین ؟ تو دوستو اب جگر کا اصل کام ھی یہی ھے کہ پورے بدن مین خیال رکھے کونسا اعضا بیمار ھورھا ھے کہان مرمت کی ضرورت ھے بیماری آنے کا اور صحت ھونے کا قانون طب مین جو فارمولا رائج ھے اسے ھم رطوبت یبوست حار اور بارد سے جانتے ھین یعنی ان کی کمی بیشی مرض و صحت پیدا کرنے مین معاون ھین یا ان سے ھی ھوتی ھے اب بات مختصر کرتا ھون جب جگر سمجھتا ھے کہ فلان عضو مین رطوبات کی زیادتی ھو کر عضو بیمار ھونے کا خدشہ ھو گیا ھے یا بیمار ھو گیا ھے تو جگر اپنے خادم غدد جاذبہ کا فعل تیز کردیتا ھے اور متعلقہ عضو مین پڑی فاضل رطوبات کو جذب کرکے خون مین شامل کردیتا ھے اس طرح جب غدد جاذبہ کے مسلسل عمل سے خون مین رطوبات زیادہ جمع ھو کر اس سے خون کے ذریعے مذید امراض پیدا ھونے کا خدشہ بڑھ جاتا ھے تو دوستو جگر اپنے دوسرے خادم غدد ناقلہ کا فعل تیز کرکے ان رطوبات کو خون سے چھانٹ یعنی خارج کردیتا ھے
دوستو یہ ھے مختصر ترین فلسفہ ارتقا مرض وصحت کا انشاءاللہ کوئی دعوہ تو نہین لیکن آپ کو یہ بھی بتا دون جو تشریح مین نے آپ کو بتائی ھے کسی بھی طبی کتاب مین ایسے نہین ملے گی
یہان ایک مختصر تعریف مرض پہ بھی کیے دیتا ھون
مرض کی بھی دو قسمین ھوتی ھین ایک مرض ساذج اور دوسری مرض مادی ھوتی ھے
ساذج کے معنی کسی شے کا گمان ھونا یا اس کو جھوٹ بولنے کا معنی بھی لیا جاتا ھے اور مادہ کا مطلب ھر اس چیز کو کہتے ھین جو جگہ گھیرتی ھے جو جسم رکھتی ھو جس کا طول عرض اور عمق بھی ھو
ساذج کا لفظ امراض مین اس وقت بولا جاتا ھے جب کوئی انہونی انجانی یا غیر مرئی حالت مرض ھو یا یون کہہ لین جب کسی مرض کی درست تشخیص نہ ھورھی ھو یا محض مرض کو فرض یا گماں کر لیا گیا ھو یا جس کی مطلق سمجھ نہ آئی ھو اور دوسرے لفظون مین تکے کی ھی تشخیص اور تکے سے ھی علاج کیا جاۓ اسے مرض ساذج کہا گیا ھے اب مادی مرض جس کی حقیقی پہچان ھو جس کی درست تشخیص ھو اور درست علاج ھو اسے مادی مرض کہتے ھین یاد رھے نفسیاتی امراض بھی ساذج امراض مین ھی آتی ھین یاد رکھین ھر چیز کے دوپہلو ضرور ھین منفی اور مثبت باقی مضمون انشاءاللہ اگلی قسط مین جو انشاءاللہ مشینی اور کیمیائی تحریک پہ ھو گا کوشش ھے کہ مضمون کو جتنا ھو سکے سمیٹ دون باقی کی تشریحات کتابون کے مطالعہ سے بھی حاصل کرین
۔۔۔۔تشخیص امراض وعلامات ۔۔۔۔۔۔قسط نمبر 21۔۔۔۔۔۔
پچھلی قسط مین بات یہان تک پہنچی تھی دماغ ارتقاء کی آخری شکل ھے اور اسے اللہ تعالی نے سب سے افضل مقام بھی دیا ھے اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔یہ نہ صرف انسانی جسم کے اوپر حکمرانی کرتا ھے بلکہ پوری کائینات پہ حکمرانی کرتا ھے بلکہ ھر چیز پہ حاکم اعلی ھے پچھلی قسط کے شروع مین مین نے لکھا تھا اس کے اصل دو خادم ھین ایک حکم رسان اعصاب ایک خبر رسان اعصاب بلکہ ان کا کام بھی سمجھا دیا تھا مثال مختصر ھی دی تھی اب اس مین وسعت پیدا کر لیتے ھین لیکن پہلے ذرا قلب کے اور جگر کے خادمون جن مین عضلات کے خادم ارادی عضلات اور غیر ارادی عضلاتی اور جگر وغدد کے خادم غدد ناقلہ اور غدد جاذبہ کا بھی فعل یعنی کام وتشریح ساتھ ھی ھو جاۓ
اب سمجھین ۔۔۔ مثال دی تھی کہ جسم پہ کسی بھی مقام پہ ضرب لگی تو خبر رسان اعصاب نے فورا ضرب کے احساس یا نقصان کی خبر فورا حاکم اعلی دماغ تک یہ خبر پہنچادی جیسے ھمارے نظام مین تھانہ ھوتا ھے اب اس تھانہ کے ایریا مین کہین بھی جرم ھوتا ھے تو دوستو پورے تھانہ کے ایریا مین پولیس کے مخبر ضرور پھیلے ھوتے ھین وہ فورا پولیس کو جرم کی اطلاع اور مجرم سے بھی آگاہ کرتے ھین پھر پولیس کاروائی کرکے مجرم کو گرفتار کرتی ھے بالکل اسی طرح یہ اعصاب پورے انسانی جسم کے مخبر ھوتے ھین اور یہ بدن کے تھانہ یعنی دماغ تک خبر مضروب مقام کی پہنچاتے ھین ۔۔۔نوٹ۔۔۔ یہی اعصاب ھین جب ان مین ادراکی قوت ختم ھوتی ھے تو فالج کی پہلی نشانی ظاھر ھوتی ھے آپ مفلوج حصہ کو چھوئین گے تو پتہ نہین چلتا احساس نہین ھوتا تو آپ کہتے ھین کہ فالج کی شکایت ھے ۔۔۔اب ھم بات کررھے تھے ضرب لگنے والی بات تو دماغ تک پہنچ گئی اب آگے کیا عمل ھوتا ھے اب دماغ پہلا کام یہ کرتا ھے کہ ایک حکم جاری کرتا ھے یہ حکم پہنچانے مین اب دوسرے خادم حکم رسان اعصاب نے یہ حکم بجا لانا ھوتا ھے وہ یہ حکم لے کر دل کے پاس جاتے ھین وہ اپنے خادم حرکتی عضلات تک یہ حکم اور عمل در آمد کا فرمان جاری کردیتا ھے اب عضلات فورا حرکت مین آجاتے ھین اور مضروب مقام کا دفاع کرتے ھین یہ سب عمل بہت تیزی سے سرانجام ھوتا ھے جیسے آپ خود ھی اندازہ کر لین ایک شخص کو شہد کی مکھیان مسلسل کاٹ رھی ھین تو کٹنے کی یا مضروب حصہ کی خبر مسلسل دماغ تک پہنچ رھی ھے دماغ مسلسل حکم دے رھا ھے اب حکم رسان اعصاب مسلسل حکم پاس کررھے ھین عضلات مسلسل حرکت مین ھین کبھی ھاتھ اس جگہ کبھی فلان جگہ پہ چل رھا ھے دفاع مین بھی اور حفاظت مین ذرا سوچ کر خود ھی اندازہ لگا لین کیا کیفیت ھوتی ھے اب آپ خود ھی یہ بھی سوچ لین اتنے تیز ترین اور وسیع نظام کو حرکت دینے یا زندہ رکھنے کے لئے لازمی بات ھے خوراک یا پٹرول ضرور چاھیے ھے تو یاد رکھین قدرت بڑی ھی فیاض ھے وہ اللہ ﷻ ھے وہ کبھی بھی کسی کام کو ادھورا نہین چھوڑتا یہ صفت تو انسانی ھے کہ کام کو ادھورا چھوڑ دینا خیر اللہ تعالی نے ان کی خوراک پیدا کرنے کے لئے یعنی دل ودماغ کو زندہ رکھنے کے لئے بدل ماتحیلل کے طور پر غذا کو تحلیل کرکے ان تک پہنچانے والا کام جگر کے ذمہ لگایا ھے اور آپ کو بتا چکا ھون جگر ایک بہت بڑا غدد ھے اس کے بھی دوخادم ھین غدد ناقلہ اور غدد جاذبہ اور یہ جگر کے خادم کیون ھین ؟ تو دوستو اب جگر کا اصل کام ھی یہی ھے کہ پورے بدن مین خیال رکھے کونسا اعضا بیمار ھورھا ھے کہان مرمت کی ضرورت ھے بیماری آنے کا اور صحت ھونے کا قانون طب مین جو فارمولا رائج ھے اسے ھم رطوبت یبوست حار اور بارد سے جانتے ھین یعنی ان کی کمی بیشی مرض و صحت پیدا کرنے مین معاون ھین یا ان سے ھی ھوتی ھے اب بات مختصر کرتا ھون جب جگر سمجھتا ھے کہ فلان عضو مین رطوبات کی زیادتی ھو کر عضو بیمار ھونے کا خدشہ ھو گیا ھے یا بیمار ھو گیا ھے تو جگر اپنے خادم غدد جاذبہ کا فعل تیز کردیتا ھے اور متعلقہ عضو مین پڑی فاضل رطوبات کو جذب کرکے خون مین شامل کردیتا ھے اس طرح جب غدد جاذبہ کے مسلسل عمل سے خون مین رطوبات زیادہ جمع ھو کر اس سے خون کے ذریعے مذید امراض پیدا ھونے کا خدشہ بڑھ جاتا ھے تو دوستو جگر اپنے دوسرے خادم غدد ناقلہ کا فعل تیز کرکے ان رطوبات کو خون سے چھانٹ یعنی خارج کردیتا ھے
دوستو یہ ھے مختصر ترین فلسفہ ارتقا مرض وصحت کا انشاءاللہ کوئی دعوہ تو نہین لیکن آپ کو یہ بھی بتا دون جو تشریح مین نے آپ کو بتائی ھے کسی بھی طبی کتاب مین ایسے نہین ملے گی
یہان ایک مختصر تعریف مرض پہ بھی کیے دیتا ھون
مرض کی بھی دو قسمین ھوتی ھین ایک مرض ساذج اور دوسری مرض مادی ھوتی ھے
ساذج کے معنی کسی شے کا گمان ھونا یا اس کو جھوٹ بولنے کا معنی بھی لیا جاتا ھے اور مادہ کا مطلب ھر اس چیز کو کہتے ھین جو جگہ گھیرتی ھے جو جسم رکھتی ھو جس کا طول عرض اور عمق بھی ھو
ساذج کا لفظ امراض مین اس وقت بولا جاتا ھے جب کوئی انہونی انجانی یا غیر مرئی حالت مرض ھو یا یون کہہ لین جب کسی مرض کی درست تشخیص نہ ھورھی ھو یا محض مرض کو فرض یا گماں کر لیا گیا ھو یا جس کی مطلق سمجھ نہ آئی ھو اور دوسرے لفظون مین تکے کی ھی تشخیص اور تکے سے ھی علاج کیا جاۓ اسے مرض ساذج کہا گیا ھے اب مادی مرض جس کی حقیقی پہچان ھو جس کی درست تشخیص ھو اور درست علاج ھو اسے مادی مرض کہتے ھین یاد رھے نفسیاتی امراض بھی ساذج امراض مین ھی آتی ھین یاد رکھین ھر چیز کے دوپہلو ضرور ھین منفی اور مثبت باقی مضمون انشاءاللہ اگلی قسط مین جو انشاءاللہ مشینی اور کیمیائی تحریک پہ ھو گا کوشش ھے کہ مضمون کو جتنا ھو سکے سمیٹ دون باقی کی تشریحات کتابون کے مطالعہ سے بھی حاصل کرین
No comments:
Post a Comment