۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔
۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔قسط نمبر76۔
کل کی پوسٹ مین مین بات کررھاتھاکہ جدیدریسرچ جس مین بہت سے لیبارٹری ٹیسٹ آگئےاورتشخیص کانظام جہان بہترھوا وھین کچھ باتین بہت ھی غلط بھی ھوئی ھین ان مین پہلی بات حکماءحضرات بظاھرایلوپیتھی کی بےحدمخالفت کرتےھین بلکہ دورحاضرکےتمام اطباءکرام اسےفرنگی علاج کےنام سےیعنی یہ لفظ نفرت کی شکل مین لکھتےھین جبکہ انہی کی تحقیقات یعنی لیبارٹری ٹیسٹون پہ بھی اعتمادکرتےھین اس مین مجھےچند وجوھات نظر آئی حکماء کی کم علمی اور نئی جدت اور تحقیق نہ کرسکنےکی وجہ اورحکومت کی سرپرستی نہ کرنابلکہ حکماء کوذلیل ورسواکرنےکےھرپہلوکی حوصلہ افزائی کرنایہان تک کہ ایک سرکاری ھسپتال کاوارڈسرونٹ ایک کوالیفائیڈطبیب سے زیادہ عزت دارھےجودرجہ چہارم کاملازم ھوتا ھےیہ سب کچھ کیون ھوااس کی وجہ یہ ھےکہ طب قدیم کےمیدان مین تحقیقی کام رک گیااورھمارےملک مین چندنااھل لوگ طبی کونسل پہ مسلط ھو گئےاورآج بھی ھین انہون نے اپنےاپنےادارےبناکرصرف کاروبارکیاکاروبارمین بھی کچھ نیانہ تھا وھی قرابا دینی نسخے معجونات شربت سفوف کشتہ جات کاھڑےوغیرہ یعنی یہ لوگ عیش پرست بن گئے محنت کرکے راضی ھی نہ تھے طب کومذاق بنا کے رکھ دیاان لوگون نے عطائی جیسےخطاب صرف پوشیدہ امراض کےماھرکالیبل چپک گیاحکماءکی پیشانی پہ اوربہت افسوس ھوتاتھا جب بورڈ پڑھتےماھرامراض پوشیدہ زنانہ ومردانہ اب دوسراغلط کام ایلوپیتھی مین بھی ھوایہ اس سے بھی زیادہ خوفناک کام تھا سن اسی کی دھائی تک جو ڈاکٹر تھے وہ اپنے تجربہ اور علم کے زور پہ کسی نہ کسی حد تک درست تشخيص کرکے علاج معالجہ کرتے تھے پھر ایک ایسا طوفان آیا ٹیسٹون کی بھرمار ھو گئی اور نت نئے اینٹی بائیوٹک متعارف ھوۓ جو بات ٹیسٹ بتاۓ وہ مہر لگ گئی کہ فلان مرض ھے اب سب تشخيص مشینون اور آلات سے ھونے لگی جس کا نتیجہ یہ نکلا بے شمار لوگون کی ٹیسٹ رپورٹ غلط آتی اورمرض کچھ اور ھوتی ٹیسٹ مین مرض کچھ اور نظرآرھی ھوتی ھے اس طرح علاج بھی غلط ھوتا اور ھزارون لوگ موت کے منہ مین چلے گئے اس لئے مین کہتا ھون آپ تشخيص کا ھرذریعہ استعمال کرین یعنی تشخيص بذریعہ نبض تشخيص بذریعہ قارورہ پھر ٹیسٹ رپورٹ بھی لین اب سب تشخيص ملاحظہ کرین حتمی رزلٹ سامنے آجاۓ گا اللہ تعالی سب کو عقل سلیم دے آئیے اب اپنے مضمون کی گہرائی مین چلتے ھین
نارمل پیشاب کی رپورٹ بھی آپ نے سمجھ لی اور اس مین کمی بیشی کی بات بھی آپ نے سمجھ لی
یعنی اگر البیومن کا اخراج ھے تو یہ ورم گردہ مزمن یعنی کرانک برائیٹس ڈیزیز کی علامت ھے مریض کمی خون کا شکار ھوتا ھے دم کشی اور کھانسی کی شکایت ھوتی ھے مجاری سے نکسیر اور قے مین بھی خون آجاتا ھے دیکھنے مین پیشاب زردی مائل اور مقدارمین کم ھوتا ھےاب پیشاب کی کمی کے ساتھ ساتھ البیومن بڑھتی جاتی ھےجب مرض مین شدت آتی ھےتوتشنج بےھوشی کے دورےشروع ھوجاتےھین برین ھیمرج اکثرھوجایاکرتا ھے ورنہ یوریمیایعنی سمیت بول ھوکرموت واقع ھوجاتی ھےاب ایسی صورت مین کریاٹی نین کی زیادتی بھی ھوجاتی ھےاھم بات یہ ھے کہ جسم پہ سوجن اوراستسقاءکی علامات پائی جاتی ھین یادرکھین اس مین تحریک غدی عضلاتی ھوتی ھےاگر ورم گردہ شدیدھوگاتوتحریک اعصابی ھوگی اس مین گردون مین شدیددردھوگاجس کی صورت مروڑکی سی ھوگی اور پیشاب باربارقطرون کی صورت مین تکلیف سے خارج ھوگا جسم پہ اماس اورسوجن نہ ھوگی ورم گردہ مذمن کی ھلکی سی علامات ھوسکتی ھین
اب ایک اوراھم نکتہ بتادیتاھون غدی اعصابی مرض مین جس طرح پیشاب سوزشی جلن اورقطرون کی صورت مین آتا ھے بالکل اسی طرح اس تحریک مین آنکھ ناک گلااوردیگرتمام مجاری سےجورطوبت یاپانی خارج ھوتاھےوہ نمک کی تیزی سے راستون کوسوزش ناک کردیتا ھےآنکھین ناک گلااورجلدسرخ ھوجاتےھین یادرکھین گرمی دانےبھی تواسی تحریک مین ھواکرتے ھین ایسےمریض نزلہ زکام کی ابتدامین سخت اذیت اٹھاتے ھین
اب کچھ خواتین حمل کےآخری دو تین ماہ مین جسم پہ اماس آجایاکرتا ھےاورالبیومن بھی بہت خارج ھواکرتی ھےیہ بھی گردون کی ورم اورتحریک غدی عضلاتی کی علامت ھے
البیومن دراصل انڈے کی سفیدی کی طرح کا لیسدار مادہ ھے جو پیشاب سے ھلکاھونے کی بنا پر بعض اوقات پیشاب سے پہلے اور کبھی بعدمین بھی ھوتاھےاب یارلوگ اسےبھی جریان منی سمجھ کرعلاج کرتےرھتےھین اکثرلوگ اسےدیکھ کرگھبراجایاکرتےھین اور اسے منی ھی خیال کرتے ھین اگر مریض کا قارورہ دیکھا جاۓ تویہ مادہ اوپرکی تہہ مین بادل کی صورت مین نظرآتا ھے اسے بول زلالی کہتےھین یعنی البیومی نوریا
۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔قسط نمبر76۔
کل کی پوسٹ مین مین بات کررھاتھاکہ جدیدریسرچ جس مین بہت سے لیبارٹری ٹیسٹ آگئےاورتشخیص کانظام جہان بہترھوا وھین کچھ باتین بہت ھی غلط بھی ھوئی ھین ان مین پہلی بات حکماءحضرات بظاھرایلوپیتھی کی بےحدمخالفت کرتےھین بلکہ دورحاضرکےتمام اطباءکرام اسےفرنگی علاج کےنام سےیعنی یہ لفظ نفرت کی شکل مین لکھتےھین جبکہ انہی کی تحقیقات یعنی لیبارٹری ٹیسٹون پہ بھی اعتمادکرتےھین اس مین مجھےچند وجوھات نظر آئی حکماء کی کم علمی اور نئی جدت اور تحقیق نہ کرسکنےکی وجہ اورحکومت کی سرپرستی نہ کرنابلکہ حکماء کوذلیل ورسواکرنےکےھرپہلوکی حوصلہ افزائی کرنایہان تک کہ ایک سرکاری ھسپتال کاوارڈسرونٹ ایک کوالیفائیڈطبیب سے زیادہ عزت دارھےجودرجہ چہارم کاملازم ھوتا ھےیہ سب کچھ کیون ھوااس کی وجہ یہ ھےکہ طب قدیم کےمیدان مین تحقیقی کام رک گیااورھمارےملک مین چندنااھل لوگ طبی کونسل پہ مسلط ھو گئےاورآج بھی ھین انہون نے اپنےاپنےادارےبناکرصرف کاروبارکیاکاروبارمین بھی کچھ نیانہ تھا وھی قرابا دینی نسخے معجونات شربت سفوف کشتہ جات کاھڑےوغیرہ یعنی یہ لوگ عیش پرست بن گئے محنت کرکے راضی ھی نہ تھے طب کومذاق بنا کے رکھ دیاان لوگون نے عطائی جیسےخطاب صرف پوشیدہ امراض کےماھرکالیبل چپک گیاحکماءکی پیشانی پہ اوربہت افسوس ھوتاتھا جب بورڈ پڑھتےماھرامراض پوشیدہ زنانہ ومردانہ اب دوسراغلط کام ایلوپیتھی مین بھی ھوایہ اس سے بھی زیادہ خوفناک کام تھا سن اسی کی دھائی تک جو ڈاکٹر تھے وہ اپنے تجربہ اور علم کے زور پہ کسی نہ کسی حد تک درست تشخيص کرکے علاج معالجہ کرتے تھے پھر ایک ایسا طوفان آیا ٹیسٹون کی بھرمار ھو گئی اور نت نئے اینٹی بائیوٹک متعارف ھوۓ جو بات ٹیسٹ بتاۓ وہ مہر لگ گئی کہ فلان مرض ھے اب سب تشخيص مشینون اور آلات سے ھونے لگی جس کا نتیجہ یہ نکلا بے شمار لوگون کی ٹیسٹ رپورٹ غلط آتی اورمرض کچھ اور ھوتی ٹیسٹ مین مرض کچھ اور نظرآرھی ھوتی ھے اس طرح علاج بھی غلط ھوتا اور ھزارون لوگ موت کے منہ مین چلے گئے اس لئے مین کہتا ھون آپ تشخيص کا ھرذریعہ استعمال کرین یعنی تشخيص بذریعہ نبض تشخيص بذریعہ قارورہ پھر ٹیسٹ رپورٹ بھی لین اب سب تشخيص ملاحظہ کرین حتمی رزلٹ سامنے آجاۓ گا اللہ تعالی سب کو عقل سلیم دے آئیے اب اپنے مضمون کی گہرائی مین چلتے ھین
نارمل پیشاب کی رپورٹ بھی آپ نے سمجھ لی اور اس مین کمی بیشی کی بات بھی آپ نے سمجھ لی
یعنی اگر البیومن کا اخراج ھے تو یہ ورم گردہ مزمن یعنی کرانک برائیٹس ڈیزیز کی علامت ھے مریض کمی خون کا شکار ھوتا ھے دم کشی اور کھانسی کی شکایت ھوتی ھے مجاری سے نکسیر اور قے مین بھی خون آجاتا ھے دیکھنے مین پیشاب زردی مائل اور مقدارمین کم ھوتا ھےاب پیشاب کی کمی کے ساتھ ساتھ البیومن بڑھتی جاتی ھےجب مرض مین شدت آتی ھےتوتشنج بےھوشی کے دورےشروع ھوجاتےھین برین ھیمرج اکثرھوجایاکرتا ھے ورنہ یوریمیایعنی سمیت بول ھوکرموت واقع ھوجاتی ھےاب ایسی صورت مین کریاٹی نین کی زیادتی بھی ھوجاتی ھےاھم بات یہ ھے کہ جسم پہ سوجن اوراستسقاءکی علامات پائی جاتی ھین یادرکھین اس مین تحریک غدی عضلاتی ھوتی ھےاگر ورم گردہ شدیدھوگاتوتحریک اعصابی ھوگی اس مین گردون مین شدیددردھوگاجس کی صورت مروڑکی سی ھوگی اور پیشاب باربارقطرون کی صورت مین تکلیف سے خارج ھوگا جسم پہ اماس اورسوجن نہ ھوگی ورم گردہ مذمن کی ھلکی سی علامات ھوسکتی ھین
اب ایک اوراھم نکتہ بتادیتاھون غدی اعصابی مرض مین جس طرح پیشاب سوزشی جلن اورقطرون کی صورت مین آتا ھے بالکل اسی طرح اس تحریک مین آنکھ ناک گلااوردیگرتمام مجاری سےجورطوبت یاپانی خارج ھوتاھےوہ نمک کی تیزی سے راستون کوسوزش ناک کردیتا ھےآنکھین ناک گلااورجلدسرخ ھوجاتےھین یادرکھین گرمی دانےبھی تواسی تحریک مین ھواکرتے ھین ایسےمریض نزلہ زکام کی ابتدامین سخت اذیت اٹھاتے ھین
اب کچھ خواتین حمل کےآخری دو تین ماہ مین جسم پہ اماس آجایاکرتا ھےاورالبیومن بھی بہت خارج ھواکرتی ھےیہ بھی گردون کی ورم اورتحریک غدی عضلاتی کی علامت ھے
البیومن دراصل انڈے کی سفیدی کی طرح کا لیسدار مادہ ھے جو پیشاب سے ھلکاھونے کی بنا پر بعض اوقات پیشاب سے پہلے اور کبھی بعدمین بھی ھوتاھےاب یارلوگ اسےبھی جریان منی سمجھ کرعلاج کرتےرھتےھین اکثرلوگ اسےدیکھ کرگھبراجایاکرتےھین اور اسے منی ھی خیال کرتے ھین اگر مریض کا قارورہ دیکھا جاۓ تویہ مادہ اوپرکی تہہ مین بادل کی صورت مین نظرآتا ھے اسے بول زلالی کہتےھین یعنی البیومی نوریا
No comments:
Post a Comment