,,,,,,مطب کامل,,,,,,,,
#Sugar,#Diabetes
,,,,شوگر قسط نمبر 11,,,,,,
علاج لکھنے سے پہلے تین چیزون کی وضاحت رہ گئی ھے نمبر غذا اور کونسا میٹھا استعمال ھو سکتا ھے ذیابیطس قوما اور کاذب شوگر بلغمی اور سوداوی مادہ سے ھونے والی شوگر پچھلی قسط مین بات مٹھاس مختلف پہ پہنچی تھی آج غذا کی اھمیت پہ پوسٹ ھے اس پوسٹ مین زیادہ حصہ تحقیق نظریہ مفرد اعضاء مین صابر صاحب کی غذا کی اھمیت پر مشتمل ھے ,,,تحقیقات علاج بالغذا مین ایورویدک اور طب یونانی کی تحقیقات غذا اور خون کے متعلق صابر رح فرماتے ھین کہ طب یونانی مین اور ایورویدک مین جسم انسان اور خون کا تجزیہ دوشون اور اخلاط سے کیا جاتا ھے یہ دوش اور اخلاط غذا سے تیار ھوتے ھین مختلف غذاؤن سے مختلف دوش یا اخلاط بنتے ھین جب غذا مین خاص قسم کے اجزا کم ھو جائین تو امراض پیدا ھوتے ھین اگر ان دوشون یا اخلاط کو درست کر لیا جاۓ تو امراض رفع ھو سکتے ھین جہان تک ادویات اور زھرون کا تعلق ھے ان کا اثر انسانی جسم پہ ھوتا ھے جس سے ان کے افعال مین کمی بیشی اور تحلیل ھو سکتی ھے اور خون مین بھی شامل ھوتے ھین مگر خون کا جز نہین بن سکتے اگر جسم مین طاقت ھے تو جسم سے خارج ھو جاتے ھین گویا ادویات اور زھرون کا اثر ختم ھو جاتا ھے اور افعال بھی اپنی حالت پہ لوٹ آتے ھین یعنی ان کا اثر انسانی جسم پہ عارضی ھوتا ھے ,,,,یہ سب بہت غور سے دوبارہ پڑھین اس مین بہت سے ایسے نقطے ھین جو آپ کو ھر مرض کے علاج مین کام دین گے,,,,اس کے برعکس جسم پر مستقل اثر صرف خون کے کیمیائی اجزا کا ھوتا ھے جو خون مین پیدا ھوتے ھین اور خون غذا سے پیدا ھوتا ھے صابر رح ملتانی اپنی شہرہ آفاق کتاب تحقیق علاج بالغذا کے مقدمہ مین فرماتے ھین انسان اور ھر قسم کے وحشی جانور کا خون بھی صرف غذا سے پیدا ھوتا ھے کسی دوا یا زھر سے پیدا نہین ھوتا اور اس قانون کی دوستو اطباء متقدمین اور متاخرین سب کے سب اس بات کی تصدیق کرتے ھین دنیا کی کوئی سائینس اس سے انکاری نہین ھے دوسرے یہ بھی حقیقت ھے کہ زندگی کا دارومدار صحیح اور مکمل خون پہ ھے اس مین کسی بھی دوا یا زھر کا دخل نہین ھے ھر جسم کی نشو ارتقا صرف خون سے ھی ھوتی ھے اب دوستو جب سب نظریات کا خواہ ایلوپیتھک ھے خواہ ھوموپیتھی ھے ھر ایک کا جب اتفاق ھے کہ زندگی کی نشو نما خون پہ قائم ھے اور خون کا دارومدار غذا پہ قائم ھے تو پھر یہ ابہام کیون یہ غلطی کیون کہ زندگی کا دارومدار خون کے بجاۓ دوا پہ رکھ دیا جاۓ اور یہ سمجھا جاۓ کہ صحت صرف دوا سے ممکن ھے غذا سے نہین یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد آپ کو یہ سمجھانا ھے کہ دوا سے بہتر پرھیز ھے یہ ھمارے اجداد کا بھی تو قول ھے
اب آتے ھین جدید سائینس کی طرف ,,,میڈیکل سائینس نے تحقیق کیا کہ خون پندرہ ایلیمنٹس سے بنا ھے یا عناصر کا مرکب ھے اور یہ بھی ثابت کیا کہ اگر ان ایلیمنٹس مین کمی بیشی ھو جاۓ یا ان مین خرابی واقع ھو جاۓ تو مرض پیدا ھوتا ھے اسی نظریہ پہ ڈاکٹر شسلر نے بائیوکیمک ,,کیمیاوی زندگی,, کی بنیاد رکھی مگر ھوموپیتھی کی پیروی مین یہ ایک مفید نظریہ جس کو علاج بالغذا کا چھوتھائی حصہ کہنا چاھیے بالکل ختم ھو گیا اور دنیا حقیقی فوائد سے محروم ھو گئی جب جراثیم کا انکشاف ھوا تو کیا ھوا یہ اگلی قسط مین محمود بھٹہ
#Sugar,#Diabetes
,,,,شوگر قسط نمبر 11,,,,,,
علاج لکھنے سے پہلے تین چیزون کی وضاحت رہ گئی ھے نمبر غذا اور کونسا میٹھا استعمال ھو سکتا ھے ذیابیطس قوما اور کاذب شوگر بلغمی اور سوداوی مادہ سے ھونے والی شوگر پچھلی قسط مین بات مٹھاس مختلف پہ پہنچی تھی آج غذا کی اھمیت پہ پوسٹ ھے اس پوسٹ مین زیادہ حصہ تحقیق نظریہ مفرد اعضاء مین صابر صاحب کی غذا کی اھمیت پر مشتمل ھے ,,,تحقیقات علاج بالغذا مین ایورویدک اور طب یونانی کی تحقیقات غذا اور خون کے متعلق صابر رح فرماتے ھین کہ طب یونانی مین اور ایورویدک مین جسم انسان اور خون کا تجزیہ دوشون اور اخلاط سے کیا جاتا ھے یہ دوش اور اخلاط غذا سے تیار ھوتے ھین مختلف غذاؤن سے مختلف دوش یا اخلاط بنتے ھین جب غذا مین خاص قسم کے اجزا کم ھو جائین تو امراض پیدا ھوتے ھین اگر ان دوشون یا اخلاط کو درست کر لیا جاۓ تو امراض رفع ھو سکتے ھین جہان تک ادویات اور زھرون کا تعلق ھے ان کا اثر انسانی جسم پہ ھوتا ھے جس سے ان کے افعال مین کمی بیشی اور تحلیل ھو سکتی ھے اور خون مین بھی شامل ھوتے ھین مگر خون کا جز نہین بن سکتے اگر جسم مین طاقت ھے تو جسم سے خارج ھو جاتے ھین گویا ادویات اور زھرون کا اثر ختم ھو جاتا ھے اور افعال بھی اپنی حالت پہ لوٹ آتے ھین یعنی ان کا اثر انسانی جسم پہ عارضی ھوتا ھے ,,,,یہ سب بہت غور سے دوبارہ پڑھین اس مین بہت سے ایسے نقطے ھین جو آپ کو ھر مرض کے علاج مین کام دین گے,,,,اس کے برعکس جسم پر مستقل اثر صرف خون کے کیمیائی اجزا کا ھوتا ھے جو خون مین پیدا ھوتے ھین اور خون غذا سے پیدا ھوتا ھے صابر رح ملتانی اپنی شہرہ آفاق کتاب تحقیق علاج بالغذا کے مقدمہ مین فرماتے ھین انسان اور ھر قسم کے وحشی جانور کا خون بھی صرف غذا سے پیدا ھوتا ھے کسی دوا یا زھر سے پیدا نہین ھوتا اور اس قانون کی دوستو اطباء متقدمین اور متاخرین سب کے سب اس بات کی تصدیق کرتے ھین دنیا کی کوئی سائینس اس سے انکاری نہین ھے دوسرے یہ بھی حقیقت ھے کہ زندگی کا دارومدار صحیح اور مکمل خون پہ ھے اس مین کسی بھی دوا یا زھر کا دخل نہین ھے ھر جسم کی نشو ارتقا صرف خون سے ھی ھوتی ھے اب دوستو جب سب نظریات کا خواہ ایلوپیتھک ھے خواہ ھوموپیتھی ھے ھر ایک کا جب اتفاق ھے کہ زندگی کی نشو نما خون پہ قائم ھے اور خون کا دارومدار غذا پہ قائم ھے تو پھر یہ ابہام کیون یہ غلطی کیون کہ زندگی کا دارومدار خون کے بجاۓ دوا پہ رکھ دیا جاۓ اور یہ سمجھا جاۓ کہ صحت صرف دوا سے ممکن ھے غذا سے نہین یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد آپ کو یہ سمجھانا ھے کہ دوا سے بہتر پرھیز ھے یہ ھمارے اجداد کا بھی تو قول ھے
اب آتے ھین جدید سائینس کی طرف ,,,میڈیکل سائینس نے تحقیق کیا کہ خون پندرہ ایلیمنٹس سے بنا ھے یا عناصر کا مرکب ھے اور یہ بھی ثابت کیا کہ اگر ان ایلیمنٹس مین کمی بیشی ھو جاۓ یا ان مین خرابی واقع ھو جاۓ تو مرض پیدا ھوتا ھے اسی نظریہ پہ ڈاکٹر شسلر نے بائیوکیمک ,,کیمیاوی زندگی,, کی بنیاد رکھی مگر ھوموپیتھی کی پیروی مین یہ ایک مفید نظریہ جس کو علاج بالغذا کا چھوتھائی حصہ کہنا چاھیے بالکل ختم ھو گیا اور دنیا حقیقی فوائد سے محروم ھو گئی جب جراثیم کا انکشاف ھوا تو کیا ھوا یہ اگلی قسط مین محمود بھٹہ
No comments:
Post a Comment