,,,, نذیر حسین شاہ کا نسخہ کیمیا,,,,,
نہ کوئی پراسراریت نہ ھی کوئی ابہام سب کچھ آپ کے سامنے ھے میری زندگی تباہ ھو گئی سب کچھ آپ کے سامنے ھے آپ اس گتھی کو سلجھا لین مجھ سے جو پوچھنا ھے وہ پوچھ لین بلکہ کہین تو پہلا عمل مین آپ کو مکمل کرواۓ دیتا ھون آخری عمل کی مجھے کچھ سمجھ نہین آئی یہ الفاظ مجھے خود نذیر حسین شاہ صاحب نے فرماۓ تھے شاہ جی کا تعلق جلال پور بھٹیان سے تھا وفات پاۓ عرصہ گزر چکا اب ان کا مزار ھی ھے جس سے ملاقات ھو سکتی ھے لیکن جو داستان مین بیان کرنے لگا ھون اس کے گواہ زندہ ھین شاہ جی کے ساتھی زندہ ھین شاہ جی کی کہانی بہت دردناک تھی اور لمبی بھی تھی چار پانچ گھنٹے لگ گئے پوری ھسٹری سننے مین شاہ جی کے بہت سے سنیاسی نسخے جو زندگی بھر کا نچوڑ ھین ایک ھندو سادھو کے وہ بھی عطاء فرماۓ اب مین وہ سب کچھ تو سنا نہین سکتا مختصر اسی نسخہ کے مطعلقہ کچھ باتین لکھے دیتا ھون ملاحظہ فرمائین,,,,,,
پاکستان بننے سے پہلے کی بات ھے شاہ جی کھیتون مین اپنے ڈیرہ پہ کام مین مصروف تھے غروب آفتاب کا وقت ھے شاہ جی بھینسیون سے دودھ نکال چکے ھین ایک سادھو ھمراہ بیوی پہنچتا ھے رات گزارنے کی اپیل کرتا ھے شاہ جی منظور کرتے ھین کھانے کو اور تو کچھ پاس نہین تھا دوپہر کی باسی روٹی اور تازہ دودھ فراھم کر دیتے ھین شاہ جی انہین چھوڑ کے گھر چلے جاتے ھین جو وھان سے دو میل دور جلال پور بھٹیان مین ھے رات گزرتی ھے شاہ جی حلواہ اور روغنی روٹیان گھر سے بنوا کر اس ھندو میان بیوی کے لئے لے جاتے ھین وہ ھندو خوش ھو کر بطور تحفہ سونے کی ڈلی شاہ صاحب کو دیتا ھے اب شاہ جی کی مت ماری جاتی ھے لالچ مین آتے ھین مزید کا مطالبہ کرتے ھین وہ سادھو اپنے کیمیا گر ھونے کا اعتراف کر لیتا ھے شاہ صاحب دونون کو درخت سے باندھ کر گھر کی طرف دوڑ لگاتے ھین تانبے کا برتن لینے کے لئے ادھر شاہ جی کے ڈیرہ پہ پڑوسی آ جاتا ھے وہ خود کو شاہ جی کا مہمان ظاھر کرتے ھین اور بتاتے ھین کہ چور آیا ھے ھمین لوٹ کر باندھ گیا ھے اسے شاہ جی کو بلانے شہر بھیجتے ھین اور خود فرار ھو جاتے ھین راستہ مین پڑوسی اور شاہ جی کی ملاقات ھوتی ھے وہ مہمانون کی صورت حال بتاتا ھے تو شاہ جی سر پیٹ لیتے ھین اور اسے بتاتے ھین انہین شاہ جی نے خود ھی باندھا تھا شاہ صاحب گھوڑے پہ سوار تیزی سے ڈیرہ پہ پہنچتے ھین اور ان ھندوؤن کا کھرا دیکھ کر پیچھا شروع کر دیتے ھین حافظ آباد ریلوے اسٹیشن پہ پہنچ جاتے ھین اور ریل کے ڈبے مین سادھو نظر آجانے پر شاہ جی بھی ٹرین پہ سوار ھو جاتے ھین یہ ھے ابتداء داستان کی ,,,,,,,اب چودہ سال جنگلون مین سادھو کے ساتھ شاہ جی مارے مارے پھرتے رھے منت سماجت کر کے شاہ جی نے ھندو کو راضی کر لیا تھا کچھ ساتھ شاہ جی کا ھندو کی بیوی نے دیا اب وہ جنگلون مین ھی ڈیرہ لگاتا ایک تیل تیار کرتا جو بقول شاہ جی کے سرخ آفتابی رنگ کا ھوتا تھا اب اس کا طریقہ یہ تھا کہ اس نے شروع مین شاہ جی کو سنیاس کی دوائین تیار کراتا اور ان کے بارے مین سب کچھ اس نے شاہ جی کو بتا دیا کیمیاء کے نسخہ کے چار سٹیپ شاہ جی سے تیار کراتا اور آخری مرحلہ مین شاہ جی کو دور کر دیتا تھا وہ تیل سے تانبہ کو رنگین کرتا اور شاہ جی سے ھی کہتا بازار فروخت کر کے سودا سلف لے آؤ اس دوران پاکستان بن چکا تھا کلکتہ کے قریب کسی جنگلی جگہ پہ رات کے وقت سادھو کو سانپ کاٹ گیا اب اس نے آواز لگائی شاہ جی فلان دوا فورا لاؤ مجھے سانپ ڈس گیا ھے شاہ جی نے جھولے سے دوا نکالی اور ھاتھ مین پکڑ لی اب شاہ جی کے دل مین فورا ایک بجلی سی چمکی انہون نے سادھو سے کہا کہ دوا تیرے منہ مین تب ڈالون گا جب آخری بات بتاۓ گا کہ کیسے تیل بناتا ھے اب دونون مین تکرار شروع ھو گئی ھندو کہتا پہلے دوا دو تب بتاتا ھون شاہ جی کہتے پہلے بتاؤ تب دوا دون گا سانپ زیادہ زھریلا تھا سادھو کا بھی وقت آ گیا تھا سادھو مر گیا اب ان چودہ سالون مین سادھو کی بیوی نے بار بار سادھو سے کہا تھا کہ شاہ جی کو آخری بات بتا دو ,,,اب شاہ جی نے سادھو کی بیوی کو کلکتہ شہر چھوڑا اور خود چلتے پھرتے چودہ سال بعد گھر پہنچ گئے اور پوری زندگی شاہ جی نے اس آخری مرحلہ کو حل کرنے مین لگا دئے صرف تیل کھلتا نہین باقی سب کچھ من عن تیار ھو جاتا ھے کوئی ھے ایسا جو اس آخری مرحلہ کو حل کر دے تو نسخہ کی پوسٹ لگاؤن جو ھے بھی آسان
No comments:
Post a Comment