کرم کوشیاں ہیں ستم کاریاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔علم حکمت ٗ علم کیمیا اور دیسی طب جس زبوں حالی کا شکار ہے اس معاملہ میں پس پردہ بہت سے عوامل کارفرما ہیں ۔ ہر کسی نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ان علوم پر ظلم وستم روا رکھا ہوا ہے۔ آپ احباب کا یہ خادم غلام صادق بلوچ نجی مصروفیات کے باعث طویل غیر حاضری کے بعد آج پھر آپ کی خدمت میں درد دل لے کر حاضر خدمت ہے ۔ طبٗ حکمت اور کیمیا کی گرتی ہوئ ساکھ آپ سے ڈھکی چھپی بات نہین۔۔۔۔ ۔پہلا حملہ دیسی طب پر اس وقت ہوا جب مغل فرمانروا شہاب الدین شاہجہان کی بیٹی کا کامیاب علاج معالجہ کر کے انگریز ڈاکٹر نے چمنستان طب کے اندر میڈیکل سائنس کے ذہریلے پودے کی آبیاری شروع کی جس کے زہر نے ہنستے بستے طب کے باغیچے پر ایک نہ ختم والی خزاں مسلط کر دی۔ اس پر طرہ یہ کہ آنے والی تمام حکومتوں نے بتدریج نہ صرف طب و حکمت کو اپنے دست شفقت سے محروم رکھا بلکہ ستم بالاے ستم یہ ہوا کہ انگریز کی میڈیکل ساینس کو ہر قسم کی سہولیات اور سرکاری سرپرستی مہیا کی گئ۔۔۔ گردے بیچ کر بھی ڈاکٹر قابل احترام ٹہرا جب کہ حکیم کے قبض کشا پھکی بیچنے کو جرم سمجھا جانے لگا ۔ جوں جوں ڈاکٹر کی شان اور مرتبہ بڑھتا گیا توں توں حکما حضرات رو بازوال ہوتے گئے۔ حکمت کو اس قدر رسوا کیا گیا کہ آج وطن عزیز میں چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو آپ کو ایسے والدین نہیں ملیں گے جو اپنے لخت جگر کو مستقبل میں حکیم بنانے کا ارادہ رکھتے ہوں ۔ ہر آدمی اپنی اولاد کو ڈاکٹر بنانے کا متمنی ہے۔ ۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ طب و حکمت کو بد نام کرنے میں اپنوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوے اور اس کار خیر میں بساط بھر اپنا اپنا حصہ ڈالا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پارہ جو طب اور کیمیا کی روح رواں ہے اس پر مبالغے کی حد تک من گھڑت داستانیں تیار کی گیئں ۔ ان داستانوں نے پڑھے لکھے طبقے کو متنفر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مثلا کشتہ پارہ سے انسان کا دوسروں کی نظر سے غائب ہو جانا۔ انسان کا ہوا میں اڑنا۔ سینکڑوں میل بناں تھکاوٹ کے سفر کرنا۔ سفید بالوں کا سیاہ ہو جانا۔ گرے ہوے دانت دوبارہ نکل آنا۔ بڑھاپے کا جوانی میں بدل جانا۔ مردہ کا کلام کرنا۔ سینکڑوں سال کی زندگی پانا۔ زخموں کا فوری بھر جانا۔ موذئ امراض کا فی الفور خاتمہ۔ نامکمل مرد کا کامل مرد بن جانا۔جنات پریوں اور نادیدہ مخلوق سے گفتگو کرنا۔ قوت باہ کا ناقابل یقین حد تک بڑھ جانا۔ زمین کے اندر چھپے خزانے دیکھ لینا۔وغیرہ وغیرہ۔
اگرچہ ان میں کچھ حقائق بھی ہیں مگر زیادہ تر افسانوی باتیں ہیں جنہوں نے طب اور حکمت کو سواے بدنامی کے اور کچھ نہ دیا۔ ۔۔۔۔۔ایک اور ظلم جو اس مقدس پیشہ کے ساتھ ہوا وہ یہ کہ حکماے کرام کی زیادہ تعداد بخل شکنی کے لئے تیار نہ ہوئ اچھے اچھے نسخوں کا اظہار انہیں گوارا نہ ہوا بلکہ افشاے راز کی بجاے انہوں نے نسخہ جات کو قبر میں لے جانا مناسب سمجھا۔ ۔۔۔۔ علاوہ ازیں نالائق حکما اس پیشے میں شامل ہو کر اس عظیم پیشہ کی تنزلی اور زوال کا موجب بنے۔۔جو ساری زندگی نہ اچھا نغدہ بنا سکے نہ اچھی گلحکمت کر سکے تو ان حضرات نے گرتی ہوی دیوار کو مزید دھکے دئیے۔ ۔۔۔۔اچھے حکما کی کمی اور سرکار کی عدم دلچسپی کے باعث نئے نئے فارمولے ایجاد نہ ہوسکے پرانے بوسیدہ فارمولے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیر موثر ہونے لگے ۔ ۔۔۔۔۔جس رفتار سے نئی نئی امراض صحت انسانی کو اپنے شکنجے میں لے رہی ہیں اس رفتار سے حکمت میں نئے اور قابل ذکر فارمولے ایجاد نہیں ہو رہے۔ یہی حال کیمیا کا ہے جس اسپیڈ سے سونے کی پرکھ کے لئے آلات ایجاد ہو رہے ہیں اس اسپیڈ سے کیمیا گر اپنے فارمولوں میں جدت پیدا نہیں کر رہے۔۔۔۔۔۔ کیمیائ اور وئیدک کے نسخہ جات بنانا ہر آدمی کے بس کی بات نہیں نسخہ صرف وہ آدمی بنا سکتا ہے جو ٗ ان رموز و اسرار سے واقف ہو۔ مثلا موجودہ دور میں شوگر ایک عام بیماری ہو گئی ہے انگریزی دوا کھانے سے دوسری بیماریاں جنم لیتی ہیں اس لئے دیسی ادویہ پر زیادہ انحصار کرنا چاہئے مگر کسی مستند اور معتبر آدمی سے دوا لینا چاہئے۔ اگر آپ خود اس اہل ہیں تو شوگر کی دوا بنائیں اور دعاوں میں یاد رکھیں۔۔نسخہ یوں ہے کہ سم الفار سفید اچھے والا تین تولہ کی ایک ڈلی منگوا لیں۔ مٹی کے پیالہ میں یا ہانڈی میں رکھ کر نرم آگ پر پیٹھہ کے مقطر پانی کا چویہ دیتے رہیں یوں ایک کلو پانی پیٹھہ کا خرچ کریں۔ اس کے بعد آدھہ کلو راکھ پٹھکنڈا لے کر اس کے درمیان سم الفار مزکورہ رکھیں اور کڑاہی میں نرم آگ پر تین گھنٹہ پکا لیں ٹھنڈا کر کے سم الفار نکال کر پیس کر کسی ائیر ٹائٹ بوتل میں بند رکھیں۔ اس کی خوراک صرف دو چاول روزانہ کسی مناسب چیز کے ساتھ دیں ۔ شوگر کے علاوہ قوت باہ میں بھی فائدہ مند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اکثر دوست ہڑتال ورقیہ کے سفید باوزن کشتہ کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ نسخہ پیش خدمت ہے جو ہر قسم کے بخاروں پر اکسیر ہے۔ایک تولہ ہڑتال اچھے والی پانچ تولہ شیر مدار سے کھرل کریں۔ ٹکیہ بنا کر سایہ میں خشک کریں۔ اب املتاس درخت کا چھلکا جلا کر اس کی پانچ کلو راکھ جمع کریں ۔ایک روغنی ہانڈی میں اس راکھ کے درمیان ٹکی مزکورہ رکھیں ۔ ہانڈی کو بند گلحکمت کریں خشک ہونے پر آگ پر چڑھا دیں ۔ بہتر گھنٹہ لگاتار آگ پر پکائیں۔ آگ بند کر کے ٹھنڈا کر کے نکالیں۔ ہڑتال باوزن سفید کشتہ ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دوست شورہ کے تیل کی تلاش میں رہتے ہیں جو آگ پر بھی تیل رہے اور آگ سے اتارو تو بھی تیل رہے۔ یاد رکھیں شورہ قائم کریں جو اپنے شعلہ کے ساتھ قائم ہو۔ یعنی بناں چنگاری نکلے قائم کیا گیا ہو۔ ایک پاو اس شورہ قائم کو دو گرام تیزاب گندھک سے کھرل کر کے دھوپ میں رکھ دو۔ تین گھنٹے بعد پھر جدید دو گرام تیزاب گندھک شامل کر کے اچھی طرح کھرل کر کے تین گھنٹے دھوپ میں رکھ دو ۔ تیسری بار پھر جدید دو گرام تیزاب گندھک سے کھرل کر کے تین گھنٹے دھوپ میی رکھ دو۔ اب اسے تیز آگ پر پکاو شورہ کھل کر غیر جامد تیل ہو گا جو اوپر نیچے تیل ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض دوست تانبے کے رنگ کی تلاش میں ہیں تو لئیجے تانبے کا رنگ ملاحظہ فرمائیں۔ آدھہ کلو نوشادر ٹھیکری کو پیس کر اس میں زرا زرا پانی ملاتے کھرل کرتے جائیں ۔نوشادر سارا حل ہو جاے مگر محلول پتلا نہ ہو ۔گاڑھا محلول لے کر اسے حقہ میں ڈال دیں حقہ کے منہ پر وہ پھول رکھ دیں جس میں تمباکو رکھا کرتے ہیں۔ پھول اس برتن کو بولتے ہیں جس میں حقہ پینے کے لئے تمباکو رکھا جاتا ہے۔ یہ کیف نما بن گیا اب ایک پاو جست پگھلا کر اس پھول کے زریئے حقہ میں ڈالو کہ اس محلول مزکورہ میں جا کر گرے۔ اس طرح ایک سو بار کے عمل سے جست قائم ہو گا جو ایک تولہ تانبے کو ایک ماشہ مارنے سے چوبیس قیراط رنگ سنہری میں بدل دیتا ہے۔ اگر حقہ کی بجاے کسی دوسرے کھلے برتن میں کام کریں گے تو جست تڑاخا مار کر آپ کو زخمی کر سکتی ہے۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اب چاندی کے حملان کا تحفہ حاضر ہے۔ڈنڈا تھوہر کاٹ کر سایہ میں خشک کریں ۔ پھر اسے جلا کر اس کی راکھ تیار کریں۔ اس میں چار گنا سادہ پانی ڈال کر کسی مٹی کے برتن میں تین چار دن رکھیں۔ روزانہ لکڑی سے ہلا دیا کریں ۔چار دن بعد اس کا مقطر لیں۔ ایک تولہ ڈلی سنکھیا سفید کو کڑاہی میں اس پانی کا چویہ اس وقت تک دیں کہ سنکھیا موم ہو جاے۔ اس سے پہلے آپ کے پاس پارہ نیم قائم موجود ہو۔ اگر آپ کے پاس پارہ نیم قائم نہیں تو دھاتورہ کے پتوں کے پانی میں دس بارہ گھنٹے پکا لو یا بھنگ کے پانی میں یا امر بیل کی پانی میں پکا ہوا ہو۔ یہ پارہ اس سنکھیا مومیہ سے ہموزن ملا کر کھرل کرو اور پارہ کے برابر وزن اصلی شہد ملا کر خوب کھرل کرو۔ اس مرکب میں سے پانچ گرام لے کر بارہ گرام تانبہ پر حالت چرخ میں طرح کرو۔ تانبہ قابل حملان نقرہ ہو گا۔ ہموزن بازاری نقرہ سے حملان کریں۔ والسلام
No comments:
Post a Comment