۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔تشخیص امراض وعلامات ۔۔۔۔۔۔۔قسط 90۔۔۔۔
حسب وعدہ آج ھم قارورہ سے بات شروع کرین گے لیکن اس سے پہلے مین تعارف قارورہ مین ایک آنکھون دیکھا واقعہ سنانا چاھون گا نبض اور قارورہ کے جو میرے استاد تھے وہ میرے چچا بھی تھے اپنے وقت کے بہت مشہور حکیم تھےان کا نام حکیم محمد صادق تھا ضلع منڈی بہاوالدین اور منڈی بہاوالدین سے جڑواں تمام اضلاع انہین بڑی اچھی طرح جانتے تھے بڑی بڑی دور سے لوگ صبح صبح ھی آجایا کرتے تھے جو مریض نہین آسکتا تھا اس کا قارورہ لے کرلوگ آیا کرتے تھے خیر اس موضوع پہ واقعات تو بےشمار ھین لیکن ایک شخص لالہ موسی سے مریض کا قارورہ ھی کے کرآیا اب چچا صاحب نے قارورہ کی بوتل اسے دھوپ مین سامنے رکھنے کو کہا اور بغیر کوئی بات کیے دوا لکھی اور پرچی بندے کے ھاتھ مین تھمائی اور دوا لینے کا حکم دے دیا تھوڑی دیر بعد دوا لے کر بندہ دوبارہ چچا صاحب کے پاس آیا اور کہا حکیم صاحب مجھے کم سے کم مریض کی مرض ھی بتا دین نہ آپ نے کچھ پوچھا نہ مین نے کچھ بتایا بس آپ نے دوا لکھ دی اور مین نے لے لی مین بڑا پریشان ھون کچھ مطمئن کرین اب چچا صاحب نے فرمایا بیٹے قارورہ عورت کا ھے اور اسے سینہ پہ بائین سائیڈ پھوڑا ھے اور کینسر نہین ھے اگر یہ ھی مرض ھے تو دوا بھی مین نے اسی کی دی ھے تو اس شخص نے شکریہ ادا کیا اور اعتراف کیا بالکل یہی تکلیف ھے میری بیوی کو ھم بڑے پریشان تھے ڈاکٹروں نے کینسر کاشک ڈالا ھوا تھا یہ تھی قارورہ سے تشخيص مرض۔۔۔
اور انتہائی افسوس کے ساتھ اعتراف کررھا ھون یہ قارورہ کی تشخیص مرض مین اس حد تک نہ سیکھ سکا بس نبض ھی سیکھی باوجود اسکے اس وقت میرے ذھن پہ یہ بات سوار رھتی تھی کہ کہان لوگون کے پیشاب سونگھتا رھون اب وہ وقت ھاتھ نہین آتا اس وقت بھی ماہ رمضان کا پہلا جمعہ تھا کہ اچانک چچا صاحب یہ دار فانی چھوڑ گئے إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعون
آئیے اب ھم موضوع کی طرف چلتے ھین
پہلی بات قارورہ اس پیشاب کو کہتے ھین جو کسی معمل گاہ یعنی لیبارٹری مین ٹیسٹ یعنی کسی مرض کی تشخیص کے معائینے کے لئے یا پھر کسی طبیب وحکیم کے پاس نظری معائینہ یعنی طبی معائینے کے لئے لایاجاۓ
اب قارورہ دیکھنے کی چند شرائط بھی ھین انہین لازما مدنظر رکھین
قارورہ صبح کا ھونا چاھیے یعنی جب مریض سوکراٹھے اور جو پہلا پیشاب کرے اسے لانا چاھیے لیکن اگر کوئی شخص رات کو بھی پیشاب کرنے کا عادی ھو تووہ رات کا کھانا کھانے کے بعد پانچ گھنٹے بعد والا اپنا پیشاب جمع کرلے اب اسے دکھانا چاھیے
لایا جانے والا قارورہ کرتے وقت ضائع نہ ھو
وہ برتن جس مین قارورہ لایا جائے ھر قسم کی آلائشون کیمیائی اجزا سے پاک دھلا ھوا اور صاف ستھرا ھونا چاھیے اور برتن رنگ دار نہین ھوناچاھیے بلکہ شیشہ کا ھونا چاھیے تاکہ تمام اجزاء رنگ قوام وغیرہ بآسانی دیکھے جا سکین
قارورہ سردیون مین تین گھنٹہ اور گرمیون مین دوگھنٹہ سے زیادہ پرانا نہین ھونا چاھیے اس مدت کے بعد دراصل اس مین ظاھری اور کیمیائی تبدیلیان شروع ھوجاتی ھین
مریض نے اس رات معمول سے ھٹ کر ماکول مشروبات یا دواکی صورت مین کوئی نئی شے نہ کھائی ھو نہ ھی استعمال کی ھو مثلا اگر رات مریض نے سربیکس گولی کھالی ھو توصبح پیشاب کا رنگ بالکل زرد ھوگا یعنی یہ سربیکس گولی کا رنگ پیشاب مین آگیا ھے اس لئے طبیب دھوکہ کھا جائے گا اسی طرح اگر مریض نے رات کو سٹرالکا شربت جو کہ ایک کھارا شربت ھے یہ پی لیا تو پھر بھی معالج رنگ اور قوام مین دھوکہ کھاجاۓ گا یہ شربت گردون کے اعصابی پردے پہ براہ راست عمل کرتا ھے جبکہ خون مین کوئی تبدیلی نہ آئی ھوگی اس لئے ایسی باتون پہ خیال کرنا چاھیے بلکہ معالج کا فرض ھے کہ وہ مریض کو پہلے ایسی ھدایات دے دے ۔ یا اگر لے کر بندہ آگیا ھے تو اس سے ایسی باتین پوچھ لے
اب معمولات سے مریض کو منع نہ کرین جو وہ روز مرہ ادا کرتا ھے یا جو کچھ وہ روزانہ معمول کے مطابق کھاتا پیتا ھے تاکہ درست تصویر مرض سامنے آسکے ممکن ھے روز مرہ استعمال کی جانے والی ا شیاء ھی باعث مرض ھون یا یہی اشیاء اسکی شفا مین رکاوٹ بن رھی ھون اب پیشاب مین ان کا اثر ھوگا تو آپ پہچان بھی سکین گے
معائینہ سے پہلے قارورہ کو کچھ دیر کے لئے رکھ دین تاآنکہ رسوب نیچے بیٹھ جائین تیرنے والے مادے اوپر اور معلق ھونے والے مادے درمیان مین ٹھہرجائین
اب سوال یہ ھے کہ صبح کا قارورہ ھی کیون لیاجائے یا اس مین کیا حکمت کارفرما ھے کہ جوکچھ رات کا کھایا پیا گیاتھا بقیہ وقفہ مین اس مین ھضم وجذب اور کیمیائی تبدیلیون کے بعد جوفاضل رطوبت اور باعث مرض مواد ھوتا ھے گردے بشکل پیشاب مثانہ مین دھکیل دیتے ھین
یاد رھے بعض دفعہ موقعہ پہ ھی مریض کا قارورہ دیکھنے مین بھی حرج نہین ھے اس طرح بہت سی معلومات ھوجایا کرتی ھین
باقی مضمون خاص شرائط اگلی قسط مین
۔۔۔۔۔۔۔۔تشخیص امراض وعلامات ۔۔۔۔۔۔۔قسط 90۔۔۔۔
حسب وعدہ آج ھم قارورہ سے بات شروع کرین گے لیکن اس سے پہلے مین تعارف قارورہ مین ایک آنکھون دیکھا واقعہ سنانا چاھون گا نبض اور قارورہ کے جو میرے استاد تھے وہ میرے چچا بھی تھے اپنے وقت کے بہت مشہور حکیم تھےان کا نام حکیم محمد صادق تھا ضلع منڈی بہاوالدین اور منڈی بہاوالدین سے جڑواں تمام اضلاع انہین بڑی اچھی طرح جانتے تھے بڑی بڑی دور سے لوگ صبح صبح ھی آجایا کرتے تھے جو مریض نہین آسکتا تھا اس کا قارورہ لے کرلوگ آیا کرتے تھے خیر اس موضوع پہ واقعات تو بےشمار ھین لیکن ایک شخص لالہ موسی سے مریض کا قارورہ ھی کے کرآیا اب چچا صاحب نے قارورہ کی بوتل اسے دھوپ مین سامنے رکھنے کو کہا اور بغیر کوئی بات کیے دوا لکھی اور پرچی بندے کے ھاتھ مین تھمائی اور دوا لینے کا حکم دے دیا تھوڑی دیر بعد دوا لے کر بندہ دوبارہ چچا صاحب کے پاس آیا اور کہا حکیم صاحب مجھے کم سے کم مریض کی مرض ھی بتا دین نہ آپ نے کچھ پوچھا نہ مین نے کچھ بتایا بس آپ نے دوا لکھ دی اور مین نے لے لی مین بڑا پریشان ھون کچھ مطمئن کرین اب چچا صاحب نے فرمایا بیٹے قارورہ عورت کا ھے اور اسے سینہ پہ بائین سائیڈ پھوڑا ھے اور کینسر نہین ھے اگر یہ ھی مرض ھے تو دوا بھی مین نے اسی کی دی ھے تو اس شخص نے شکریہ ادا کیا اور اعتراف کیا بالکل یہی تکلیف ھے میری بیوی کو ھم بڑے پریشان تھے ڈاکٹروں نے کینسر کاشک ڈالا ھوا تھا یہ تھی قارورہ سے تشخيص مرض۔۔۔
اور انتہائی افسوس کے ساتھ اعتراف کررھا ھون یہ قارورہ کی تشخیص مرض مین اس حد تک نہ سیکھ سکا بس نبض ھی سیکھی باوجود اسکے اس وقت میرے ذھن پہ یہ بات سوار رھتی تھی کہ کہان لوگون کے پیشاب سونگھتا رھون اب وہ وقت ھاتھ نہین آتا اس وقت بھی ماہ رمضان کا پہلا جمعہ تھا کہ اچانک چچا صاحب یہ دار فانی چھوڑ گئے إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعون
آئیے اب ھم موضوع کی طرف چلتے ھین
پہلی بات قارورہ اس پیشاب کو کہتے ھین جو کسی معمل گاہ یعنی لیبارٹری مین ٹیسٹ یعنی کسی مرض کی تشخیص کے معائینے کے لئے یا پھر کسی طبیب وحکیم کے پاس نظری معائینہ یعنی طبی معائینے کے لئے لایاجاۓ
اب قارورہ دیکھنے کی چند شرائط بھی ھین انہین لازما مدنظر رکھین
قارورہ صبح کا ھونا چاھیے یعنی جب مریض سوکراٹھے اور جو پہلا پیشاب کرے اسے لانا چاھیے لیکن اگر کوئی شخص رات کو بھی پیشاب کرنے کا عادی ھو تووہ رات کا کھانا کھانے کے بعد پانچ گھنٹے بعد والا اپنا پیشاب جمع کرلے اب اسے دکھانا چاھیے
لایا جانے والا قارورہ کرتے وقت ضائع نہ ھو
وہ برتن جس مین قارورہ لایا جائے ھر قسم کی آلائشون کیمیائی اجزا سے پاک دھلا ھوا اور صاف ستھرا ھونا چاھیے اور برتن رنگ دار نہین ھوناچاھیے بلکہ شیشہ کا ھونا چاھیے تاکہ تمام اجزاء رنگ قوام وغیرہ بآسانی دیکھے جا سکین
قارورہ سردیون مین تین گھنٹہ اور گرمیون مین دوگھنٹہ سے زیادہ پرانا نہین ھونا چاھیے اس مدت کے بعد دراصل اس مین ظاھری اور کیمیائی تبدیلیان شروع ھوجاتی ھین
مریض نے اس رات معمول سے ھٹ کر ماکول مشروبات یا دواکی صورت مین کوئی نئی شے نہ کھائی ھو نہ ھی استعمال کی ھو مثلا اگر رات مریض نے سربیکس گولی کھالی ھو توصبح پیشاب کا رنگ بالکل زرد ھوگا یعنی یہ سربیکس گولی کا رنگ پیشاب مین آگیا ھے اس لئے طبیب دھوکہ کھا جائے گا اسی طرح اگر مریض نے رات کو سٹرالکا شربت جو کہ ایک کھارا شربت ھے یہ پی لیا تو پھر بھی معالج رنگ اور قوام مین دھوکہ کھاجاۓ گا یہ شربت گردون کے اعصابی پردے پہ براہ راست عمل کرتا ھے جبکہ خون مین کوئی تبدیلی نہ آئی ھوگی اس لئے ایسی باتون پہ خیال کرنا چاھیے بلکہ معالج کا فرض ھے کہ وہ مریض کو پہلے ایسی ھدایات دے دے ۔ یا اگر لے کر بندہ آگیا ھے تو اس سے ایسی باتین پوچھ لے
اب معمولات سے مریض کو منع نہ کرین جو وہ روز مرہ ادا کرتا ھے یا جو کچھ وہ روزانہ معمول کے مطابق کھاتا پیتا ھے تاکہ درست تصویر مرض سامنے آسکے ممکن ھے روز مرہ استعمال کی جانے والی ا شیاء ھی باعث مرض ھون یا یہی اشیاء اسکی شفا مین رکاوٹ بن رھی ھون اب پیشاب مین ان کا اثر ھوگا تو آپ پہچان بھی سکین گے
معائینہ سے پہلے قارورہ کو کچھ دیر کے لئے رکھ دین تاآنکہ رسوب نیچے بیٹھ جائین تیرنے والے مادے اوپر اور معلق ھونے والے مادے درمیان مین ٹھہرجائین
اب سوال یہ ھے کہ صبح کا قارورہ ھی کیون لیاجائے یا اس مین کیا حکمت کارفرما ھے کہ جوکچھ رات کا کھایا پیا گیاتھا بقیہ وقفہ مین اس مین ھضم وجذب اور کیمیائی تبدیلیون کے بعد جوفاضل رطوبت اور باعث مرض مواد ھوتا ھے گردے بشکل پیشاب مثانہ مین دھکیل دیتے ھین
یاد رھے بعض دفعہ موقعہ پہ ھی مریض کا قارورہ دیکھنے مین بھی حرج نہین ھے اس طرح بہت سی معلومات ھوجایا کرتی ھین
باقی مضمون خاص شرائط اگلی قسط مین
No comments:
Post a Comment