۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔قسط نمبر 43۔۔۔
نبض ذوالفترہ۔۔۔یہ وہ نبض ھے جو چلتے چلتے اچانک رک جاۓ پھر چلنے لگے یعنی ھوتا یہ ھے نبض چلتے چلتے ایسی جگہ ٹھہر جاۓ جہان اس کے چلنے کی توقع ھو یعنی چند ٹھوکر لگائی اور اچانک ٹھوکر لگنی بند وقفہ دے کر پھر حرکت مین نبض آجاۓ تو آپ اس نبض فترہ کہین گے
یہ نبض عموما دو تین انگلیون پہ محسوس ھوا کرتی ھے سات آٹھ ٹھوکر لگانے کے بعد رک جایا کرتی ھے یہ نبض یا تو غدی ھوا کرتی ھے یا پھر اعصابی ھوتی ھے
ایسا اکثر شریان مین سدہ آجانے سے ھوتا ھے اگر مریض کمزور بھی ھو تو نہایت ھی خطرناک بات ھوا کرتی ھے آجکل معدہ کے ورم اور ترشی کے باعث بھی یہ نبض دیکھنے مین آتی ھے جو علاج سے درست ھو جایا کرتی ھے نبض بہت قوی ھو یعنی انگلیون کے پورون کے ساتھ شدت سے ٹکراۓ اور کچھ نبضون کے بعد ٹھوکر لگاۓ تو پرانے حکماء کا قول ھے اب جتنی ٹھوکرون کے بعد نبض وقفہ دیتی ھے اتنے دن بعد موت واقع ھوجایا کرتی ھے اس اصول مین کچھ سچائی بھی ھے اور کچھ غلط بھی تشریح ھے یہ قانون میرے تجربہ مین صرف اس وقت لاگو ھوتا ھے وہ بھی صرف بائین نبض پہ جب مریض کی مرض آخری درجہ مین پہنچ چکی ھو لاغر ھو چکا ھو تب یہ قانون صادق آتا ھے اب یہ نہین کہ بندہ چل پھر کے اپنے کام سرانجام دے رھا ھے اسے یہ بھی پروا نہین کہ وہ بیمار ھے اور نبض مین فترہ بھی ھو اور آپ نبض مین فترہ دیکھ کر فتوہ لگا دین کہ بس اتنے دن کا مہمان ھے دوستو یہ عموما معدہ کے امراض مین آیا کرتا ھے اب مریض کو دوالمسک جواھر دار کھلانے سے چند گھنٹون مین یہ فترہ ختم ھوجایا کرتا ھے
کسی حکیم کے استاد نے تشخيص کے سلسلے اپنے شاگرد کو سمجھایا جب مریض کی تشخيص کرنے لگو تو مریض کی چارپائی کے آس پاس بھی نظر دوڑا لینا اندازہ ھوجایا کرتا ھے کہ مریض کیا کھا چکا ھے مثلا کیلا کھایا ھو تو اس کے چھلکے پڑے ھونگے اب حکیم صاحب ایک مریض دیکھنے گئے تو چارپائی کے قریب گھوڑے کی پیٹھ پہ ڈالنے کے لئے سپاٹ یا کاٹھی بھی کہتے ھین پڑی تھی اب اس مین ایک چیز کم تھی جسے پنجابی مین تو کھل گیر کہتے ھین اردو والا نام یاد نہین جب حکیم صاحب نے دیکھا کاٹھی تو پڑی ھے لیکن ساتھ کھل گیر نہین ھے فورا فتوہ لگایا کہ مریض کھل گیر کھا چکا ھے اور داد کے لئے لواحقین کی طرف دیکھا باقی کیا ھوا یہ سب چھوڑین
اب تشخيص کے معاملے مین آپ نے ایسا کچھ نہین کرنا بلکہ حقائق سے مرض کو جانین اور سمجھین
نبض واقع فی الوسط۔۔ یہ وہ نبض ھے جو اس جگہ رکتی ھے جہان اس کے ساکن ھونے کی توقع ھوتی ھے
یعنی ذوالفترہ کے مقابل نبض ھے فترہ وہ نبض ھے جہان نبض کو حرکت کرنی چاھیے تو وہ ساکن ھوجاتی ھے اور نبض واقع فی الوسط وہ ھے کہ جہان نبض کو ساکن ھو جانا چاھیے یہ وھان حرکت کرتی ھے
نبض مسلی۔۔۔یہ وہ نبض ھے جو دونون اطراف سے سوئے کی مانند ھوتی ھے یعنی جہان سے نبض شروع ھوتی ھے وھان سے بھی انتہائی باریک نوک بنی ھو اور جہان نبض کی آخری انگلی ھوتی ھے وھان سے بھی باریک سوئے کی مانند ھو اور درمیان سے موٹی ھو کبھی یہ کمی سے بتدریج زیادتی کی طرف جاتی ھے تو کبھی یہ زیادتی سے کمی کی طرف جاتی ھے یہ نبض قویٰ مین ضعف ھو جانے کی وجہ سے ھوتی ھے
نبض مرتعش۔۔۔ کانپنے والی نبض
اس نبض مین رعشہ کی سی کیفیت پائی جاتی ھے اور یہ نبض روح حیوانی کی شدت کا اظہار کرتی ھے اور کثرت کا بھی
یہ نبض عضلاتی تحریک کے مریضون مین دیکھنے کو اکثرملتی ھے
ملتوی نبض۔۔۔ یہ وہ نبض ھے جو بل کھاتی ھوئی جارھی ھو یعنی جیسے ایک رسی یا دھاگہ ھے جو بل کھاتا جارھا ھے
یہ نبض حرارت غریزی کی کمی اور ضعف پہ دلالت کرتی ھے یعنی ان کی جسم مین کمی واقع ھو چکی ھے اب انشاءاللہ باقی مضمون اگلی قسط مین آج اتنا ھی کافی ھے
۔۔۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔قسط نمبر 43۔۔۔
نبض ذوالفترہ۔۔۔یہ وہ نبض ھے جو چلتے چلتے اچانک رک جاۓ پھر چلنے لگے یعنی ھوتا یہ ھے نبض چلتے چلتے ایسی جگہ ٹھہر جاۓ جہان اس کے چلنے کی توقع ھو یعنی چند ٹھوکر لگائی اور اچانک ٹھوکر لگنی بند وقفہ دے کر پھر حرکت مین نبض آجاۓ تو آپ اس نبض فترہ کہین گے
یہ نبض عموما دو تین انگلیون پہ محسوس ھوا کرتی ھے سات آٹھ ٹھوکر لگانے کے بعد رک جایا کرتی ھے یہ نبض یا تو غدی ھوا کرتی ھے یا پھر اعصابی ھوتی ھے
ایسا اکثر شریان مین سدہ آجانے سے ھوتا ھے اگر مریض کمزور بھی ھو تو نہایت ھی خطرناک بات ھوا کرتی ھے آجکل معدہ کے ورم اور ترشی کے باعث بھی یہ نبض دیکھنے مین آتی ھے جو علاج سے درست ھو جایا کرتی ھے نبض بہت قوی ھو یعنی انگلیون کے پورون کے ساتھ شدت سے ٹکراۓ اور کچھ نبضون کے بعد ٹھوکر لگاۓ تو پرانے حکماء کا قول ھے اب جتنی ٹھوکرون کے بعد نبض وقفہ دیتی ھے اتنے دن بعد موت واقع ھوجایا کرتی ھے اس اصول مین کچھ سچائی بھی ھے اور کچھ غلط بھی تشریح ھے یہ قانون میرے تجربہ مین صرف اس وقت لاگو ھوتا ھے وہ بھی صرف بائین نبض پہ جب مریض کی مرض آخری درجہ مین پہنچ چکی ھو لاغر ھو چکا ھو تب یہ قانون صادق آتا ھے اب یہ نہین کہ بندہ چل پھر کے اپنے کام سرانجام دے رھا ھے اسے یہ بھی پروا نہین کہ وہ بیمار ھے اور نبض مین فترہ بھی ھو اور آپ نبض مین فترہ دیکھ کر فتوہ لگا دین کہ بس اتنے دن کا مہمان ھے دوستو یہ عموما معدہ کے امراض مین آیا کرتا ھے اب مریض کو دوالمسک جواھر دار کھلانے سے چند گھنٹون مین یہ فترہ ختم ھوجایا کرتا ھے
کسی حکیم کے استاد نے تشخيص کے سلسلے اپنے شاگرد کو سمجھایا جب مریض کی تشخيص کرنے لگو تو مریض کی چارپائی کے آس پاس بھی نظر دوڑا لینا اندازہ ھوجایا کرتا ھے کہ مریض کیا کھا چکا ھے مثلا کیلا کھایا ھو تو اس کے چھلکے پڑے ھونگے اب حکیم صاحب ایک مریض دیکھنے گئے تو چارپائی کے قریب گھوڑے کی پیٹھ پہ ڈالنے کے لئے سپاٹ یا کاٹھی بھی کہتے ھین پڑی تھی اب اس مین ایک چیز کم تھی جسے پنجابی مین تو کھل گیر کہتے ھین اردو والا نام یاد نہین جب حکیم صاحب نے دیکھا کاٹھی تو پڑی ھے لیکن ساتھ کھل گیر نہین ھے فورا فتوہ لگایا کہ مریض کھل گیر کھا چکا ھے اور داد کے لئے لواحقین کی طرف دیکھا باقی کیا ھوا یہ سب چھوڑین
اب تشخيص کے معاملے مین آپ نے ایسا کچھ نہین کرنا بلکہ حقائق سے مرض کو جانین اور سمجھین
نبض واقع فی الوسط۔۔ یہ وہ نبض ھے جو اس جگہ رکتی ھے جہان اس کے ساکن ھونے کی توقع ھوتی ھے
یعنی ذوالفترہ کے مقابل نبض ھے فترہ وہ نبض ھے جہان نبض کو حرکت کرنی چاھیے تو وہ ساکن ھوجاتی ھے اور نبض واقع فی الوسط وہ ھے کہ جہان نبض کو ساکن ھو جانا چاھیے یہ وھان حرکت کرتی ھے
نبض مسلی۔۔۔یہ وہ نبض ھے جو دونون اطراف سے سوئے کی مانند ھوتی ھے یعنی جہان سے نبض شروع ھوتی ھے وھان سے بھی انتہائی باریک نوک بنی ھو اور جہان نبض کی آخری انگلی ھوتی ھے وھان سے بھی باریک سوئے کی مانند ھو اور درمیان سے موٹی ھو کبھی یہ کمی سے بتدریج زیادتی کی طرف جاتی ھے تو کبھی یہ زیادتی سے کمی کی طرف جاتی ھے یہ نبض قویٰ مین ضعف ھو جانے کی وجہ سے ھوتی ھے
نبض مرتعش۔۔۔ کانپنے والی نبض
اس نبض مین رعشہ کی سی کیفیت پائی جاتی ھے اور یہ نبض روح حیوانی کی شدت کا اظہار کرتی ھے اور کثرت کا بھی
یہ نبض عضلاتی تحریک کے مریضون مین دیکھنے کو اکثرملتی ھے
ملتوی نبض۔۔۔ یہ وہ نبض ھے جو بل کھاتی ھوئی جارھی ھو یعنی جیسے ایک رسی یا دھاگہ ھے جو بل کھاتا جارھا ھے
یہ نبض حرارت غریزی کی کمی اور ضعف پہ دلالت کرتی ھے یعنی ان کی جسم مین کمی واقع ھو چکی ھے اب انشاءاللہ باقی مضمون اگلی قسط مین آج اتنا ھی کافی ھے
No comments:
Post a Comment