۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کا مل ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ تشخیص امراض وعلامات ۔۔۔۔۔قسط نمبر 44۔۔۔
اختلاف نبض بالاطراف۔۔۔۔
اللہ جلّہ شانہ نے انسانی جسم کو ایک عمودی خط کے ذریعے تقسیم کر رکھا ھے اس تقسیم سے جسم دو حصون مین بٹ جاتا ھے اب اس تقسیم کی وضاحت سمجھین
سر کو سنٹر سے دو حصون مین تقسیم کرتے ھوۓ دونون آنکھون کا سنٹر لین پھر ناک آجاۓ گا تو ناک کو سنٹر سے تقسیم کرین تو ناک کا ایک نتھنا دائین اور ایک بائین الگ ھو جاۓ گا اسی طرح چہرے اور گردن کو تقسیم کرتے بات پیٹ اور کمر تک آگئی ھے اسے بھی بالکل سیدھے اسی طرح تقسیم کرتے جائین پیٹ کو بھی سنٹر سے اسی طرح تقسیم کرتے جائین ناف کو بھی سنٹر سے تقسیم کرتے بالکل سیدھا نیچے کی طرف تقسیم کردین
اب اس تقسیم پہ غور کرین اللہ تعالی نے انسان کے سر پہ فطری طور پہ بالکل درمیان مین مانگ کا خط رکھا ھے اب سر کے پچھلے حصہ کو غور سے دیکھین تو مہرون کے اوپر ایک لکیر سی نیچے کی طرف جاتی نظر آۓ گی سامنے پیٹ کی طرف نظر دوڑائین بالکل ایک خط نظر آۓ گا اس سب تقسیم مین اللہ تعالی نے بہت سے راز چھپا رکھے ھین اب آپ دونون کلائیون کی نبضین دیکھ لین دائین نبض اور بائین نبض ھمیشہ الگ الگ ھوتی ھین ایک جیسی کبھی بھی نہین ھو سکتی اگر ایک بندے کی دائین نبض قوی ھے تو بائین نبض ضعیف ھو گی اگر بائین قوی ھے تو دائین ضعیف ھو گی
ایسی صورت مین اگر کوئی خلقی وعارضی نقص مقامی طور پر نہ ھو تو یاد رکھین جس جانب کی نبض قوی ھو گی وہ جانب صحت مند اور قوی ھو گی جس شخص کی نبض داھنی قوی ھو گی اس شخص کے گردے جگر یعنی یعنی نظام غدد اور آلات تناسل بھی قوی ھونگے اب لازمی طور پہ اس بندے کی قوت مدافعت بھی زیادہ ھوگی اب اس بات کو بھی یاد رکھین قوی جانب کی نبض مشرف عریض اور عظیم ھو گی
اور ضعیف جانب کی نبض ضیق قصیر اور نستا منخفض ھو گی
اب اس بات کو بھی ذھن نشین کر لین کہ اگر دائین جانب کی غیر معمولی اور غیر طبعی طور پر قوی اور سریع ھو تو ایسے آدمی کو صفراوی ارتقا یعنی حرارت جگر حرقت البول اور سرعت انزال کا عارضہ لا حق ھو گا
اور اس نکتہ کو بھی یاد رکھین کہ جب دائین جانب کی نبض مشرف عریض قوی اور عظیم ھو گی تو صاحب نبض کا نچلا دھڑ قوی ھو گا بات کی سمجھ آرھی ھے نا؟
اگر دائین جانب کی نبض ضعیف ھو گی تو نصف زیرین حصہ کمزور اور بالائی حصہ قوی ھو گا اس بات کو اچھی طرح سمجھ لین کیونکہ آجکل کے طبیب حضرات کی تشخيص مین سب سے زیادہ ضرورت اسی بات کی رھتی ھے
اگر بالائی حصہ قوی اور زیرین نصف حصہ کمزور ھو گا تو ایسے مریض کی آنتین گردے اور اعضائے تناسل بھی کمزور ھوا کرتے ھین
اگر کسی شخص کی بائین ھاتھ کی نبض قوی ھو گی تو اس کے دل دماغ کی قوت کے ساتھ ساتھ حافظہ تیز اور ذھانت بھی عمدہ ھو گی پھپھڑے مضبوط اور اعصاب قوی ھونگے لیکن قوت تولیدیہ مین کمی کا رجحان ھو گا جگر وغدد کمزور خون کی کمی اور ضعف باہ لا حق ھو گی یاد رکھین بائین طرف عضلات کا مرکز قلب ھے اس لئے رطوبت حرارت غریزی بھی کم ھو گی
اب آخری بات سمجھ لین اگر غیر معمولی طور پہ بائین سائیڈ کی نبض کمزور بھی ھو اور قصیر بھی ھو تو یہ بانجھ پن کی علامت ھے
امید ھے اب نبض کی قسم اختلاف نبض بالاطراف سمجھ گئے ھونگے یعنی دونون کلائیون یا ھر دو اطراف کی نبض ایک دوسرے سے مختلف ھوتی ھے کبھی بھی ایک جیسی نہین ھو سکتی
اب بات کرتے ھین کہ مرد اور عورت کی نبض مین کیا فرق ھو سکتا ھے
۔مرد اور عورت کی نبض مین فرق ۔۔
پہلی بات تو یہ یاد رکھین مرد کا فطری طور پہ مزاج سوداوی ھوتا ھے جبکہ عورت کا فطری طور پہ مزاج صفراوی ھوا کرتا ھے اب بات کو یون سمجھ لین
مرد کی نبض عضلاتی یعنی مشرف ھوا کرتی ھے
اور عورت کی نبض غدی یعنی صفراوی اور مرد کی نسبت صغیر بھی ھوا کرتی ھے
اب بچپن جوانی اور بڑھاپے کی نبض سمجھتے ھین
۔۔بچپن ۔۔۔۔جوانی ۔۔۔بڑھاپا کی نبض مین فرق ۔
پہلے بچپن کی نبض ۔۔۔یہ نبض لین اور سریع ھوتی ھے
جوانی کی نبض ۔۔منشاری کسی قدر صلب اور رفتار مین کسی قدر تیزی ھوا کرتی ھے
بڑھاپے کی نبض۔ صلب اور بطی ھوا کرتی ھے قبض اکثر ھوتی ھے پیشاب کنٹرول ھوتا نہین ھے تھوڑا تھوڑا آتا ھے
۔ حاملہ عورت کی نبض
جوان عورت کی نبض سوداوی یعنی عضلاتی تحریک مین نہین ھوا کرتی اگر عضلاتی تحریک پیدا ھو جاۓ تو حمل ھو گیا ھے
یعنی اس کی کی نبض تین انگلی تک بڑی آسانی سے محسوس ھو گی لیکن اس مین شرف کے ساتھ قوت اور کسی قدر صلابت بھی پائی جاۓ گی چونکہ حمل کے دوران عضلاتی نبض ھو گی اس لئے اس کی نبض سریع قوی مشرف اور قریب بہ عظیم ھو گی یہ بات بھی یاد رکھین یہ حکم کل نہین ھے بعض اوقات چھوٹی عمر اور بڑھاپے مین یا کسی مرض کی وجہ سے بھی عضلاتی نبض ھو جایا کرتی ھے
جیسے چنبل خارش بھگندر اور گڑ ھر قسم کے پھوڑون مین ھوا کرتی ھے آپ ساتھ ابکائیان اوربندش حیض کو نگاہ رکھین باقی آئیندہ
۔۔۔۔۔۔۔۔ تشخیص امراض وعلامات ۔۔۔۔۔قسط نمبر 44۔۔۔
اختلاف نبض بالاطراف۔۔۔۔
اللہ جلّہ شانہ نے انسانی جسم کو ایک عمودی خط کے ذریعے تقسیم کر رکھا ھے اس تقسیم سے جسم دو حصون مین بٹ جاتا ھے اب اس تقسیم کی وضاحت سمجھین
سر کو سنٹر سے دو حصون مین تقسیم کرتے ھوۓ دونون آنکھون کا سنٹر لین پھر ناک آجاۓ گا تو ناک کو سنٹر سے تقسیم کرین تو ناک کا ایک نتھنا دائین اور ایک بائین الگ ھو جاۓ گا اسی طرح چہرے اور گردن کو تقسیم کرتے بات پیٹ اور کمر تک آگئی ھے اسے بھی بالکل سیدھے اسی طرح تقسیم کرتے جائین پیٹ کو بھی سنٹر سے اسی طرح تقسیم کرتے جائین ناف کو بھی سنٹر سے تقسیم کرتے بالکل سیدھا نیچے کی طرف تقسیم کردین
اب اس تقسیم پہ غور کرین اللہ تعالی نے انسان کے سر پہ فطری طور پہ بالکل درمیان مین مانگ کا خط رکھا ھے اب سر کے پچھلے حصہ کو غور سے دیکھین تو مہرون کے اوپر ایک لکیر سی نیچے کی طرف جاتی نظر آۓ گی سامنے پیٹ کی طرف نظر دوڑائین بالکل ایک خط نظر آۓ گا اس سب تقسیم مین اللہ تعالی نے بہت سے راز چھپا رکھے ھین اب آپ دونون کلائیون کی نبضین دیکھ لین دائین نبض اور بائین نبض ھمیشہ الگ الگ ھوتی ھین ایک جیسی کبھی بھی نہین ھو سکتی اگر ایک بندے کی دائین نبض قوی ھے تو بائین نبض ضعیف ھو گی اگر بائین قوی ھے تو دائین ضعیف ھو گی
ایسی صورت مین اگر کوئی خلقی وعارضی نقص مقامی طور پر نہ ھو تو یاد رکھین جس جانب کی نبض قوی ھو گی وہ جانب صحت مند اور قوی ھو گی جس شخص کی نبض داھنی قوی ھو گی اس شخص کے گردے جگر یعنی یعنی نظام غدد اور آلات تناسل بھی قوی ھونگے اب لازمی طور پہ اس بندے کی قوت مدافعت بھی زیادہ ھوگی اب اس بات کو بھی یاد رکھین قوی جانب کی نبض مشرف عریض اور عظیم ھو گی
اور ضعیف جانب کی نبض ضیق قصیر اور نستا منخفض ھو گی
اب اس بات کو بھی ذھن نشین کر لین کہ اگر دائین جانب کی غیر معمولی اور غیر طبعی طور پر قوی اور سریع ھو تو ایسے آدمی کو صفراوی ارتقا یعنی حرارت جگر حرقت البول اور سرعت انزال کا عارضہ لا حق ھو گا
اور اس نکتہ کو بھی یاد رکھین کہ جب دائین جانب کی نبض مشرف عریض قوی اور عظیم ھو گی تو صاحب نبض کا نچلا دھڑ قوی ھو گا بات کی سمجھ آرھی ھے نا؟
اگر دائین جانب کی نبض ضعیف ھو گی تو نصف زیرین حصہ کمزور اور بالائی حصہ قوی ھو گا اس بات کو اچھی طرح سمجھ لین کیونکہ آجکل کے طبیب حضرات کی تشخيص مین سب سے زیادہ ضرورت اسی بات کی رھتی ھے
اگر بالائی حصہ قوی اور زیرین نصف حصہ کمزور ھو گا تو ایسے مریض کی آنتین گردے اور اعضائے تناسل بھی کمزور ھوا کرتے ھین
اگر کسی شخص کی بائین ھاتھ کی نبض قوی ھو گی تو اس کے دل دماغ کی قوت کے ساتھ ساتھ حافظہ تیز اور ذھانت بھی عمدہ ھو گی پھپھڑے مضبوط اور اعصاب قوی ھونگے لیکن قوت تولیدیہ مین کمی کا رجحان ھو گا جگر وغدد کمزور خون کی کمی اور ضعف باہ لا حق ھو گی یاد رکھین بائین طرف عضلات کا مرکز قلب ھے اس لئے رطوبت حرارت غریزی بھی کم ھو گی
اب آخری بات سمجھ لین اگر غیر معمولی طور پہ بائین سائیڈ کی نبض کمزور بھی ھو اور قصیر بھی ھو تو یہ بانجھ پن کی علامت ھے
امید ھے اب نبض کی قسم اختلاف نبض بالاطراف سمجھ گئے ھونگے یعنی دونون کلائیون یا ھر دو اطراف کی نبض ایک دوسرے سے مختلف ھوتی ھے کبھی بھی ایک جیسی نہین ھو سکتی
اب بات کرتے ھین کہ مرد اور عورت کی نبض مین کیا فرق ھو سکتا ھے
۔مرد اور عورت کی نبض مین فرق ۔۔
پہلی بات تو یہ یاد رکھین مرد کا فطری طور پہ مزاج سوداوی ھوتا ھے جبکہ عورت کا فطری طور پہ مزاج صفراوی ھوا کرتا ھے اب بات کو یون سمجھ لین
مرد کی نبض عضلاتی یعنی مشرف ھوا کرتی ھے
اور عورت کی نبض غدی یعنی صفراوی اور مرد کی نسبت صغیر بھی ھوا کرتی ھے
اب بچپن جوانی اور بڑھاپے کی نبض سمجھتے ھین
۔۔بچپن ۔۔۔۔جوانی ۔۔۔بڑھاپا کی نبض مین فرق ۔
پہلے بچپن کی نبض ۔۔۔یہ نبض لین اور سریع ھوتی ھے
جوانی کی نبض ۔۔منشاری کسی قدر صلب اور رفتار مین کسی قدر تیزی ھوا کرتی ھے
بڑھاپے کی نبض۔ صلب اور بطی ھوا کرتی ھے قبض اکثر ھوتی ھے پیشاب کنٹرول ھوتا نہین ھے تھوڑا تھوڑا آتا ھے
۔ حاملہ عورت کی نبض
جوان عورت کی نبض سوداوی یعنی عضلاتی تحریک مین نہین ھوا کرتی اگر عضلاتی تحریک پیدا ھو جاۓ تو حمل ھو گیا ھے
یعنی اس کی کی نبض تین انگلی تک بڑی آسانی سے محسوس ھو گی لیکن اس مین شرف کے ساتھ قوت اور کسی قدر صلابت بھی پائی جاۓ گی چونکہ حمل کے دوران عضلاتی نبض ھو گی اس لئے اس کی نبض سریع قوی مشرف اور قریب بہ عظیم ھو گی یہ بات بھی یاد رکھین یہ حکم کل نہین ھے بعض اوقات چھوٹی عمر اور بڑھاپے مین یا کسی مرض کی وجہ سے بھی عضلاتی نبض ھو جایا کرتی ھے
جیسے چنبل خارش بھگندر اور گڑ ھر قسم کے پھوڑون مین ھوا کرتی ھے آپ ساتھ ابکائیان اوربندش حیض کو نگاہ رکھین باقی آئیندہ
No comments:
Post a Comment