,,,,,مطب کامل,,,,
#Sugar,#Diabetes
,,,, شوگر قسط نمبر 12,,,
ھان بات پہنچی تھی جب جراثیم کا انکشاف ھوا تو کیا ھوا
جراثیم کی دریافت سے پہلے ایلوپیتھی کی بنیاد خون کے عناصر کی کمی بیشی پر منحصر تھی جب جراثیم کو مرض کا سبب قرار دیا گیا تو اس وقت سے یہ نظریہ برابر ختم ھونے لگا اب کچھ کچھ غذا پہ اھمیت ایلوپیتھی دے رھی ھے وہ بھی غلط اصولون پہ تھوڑا آگے وضاحت کرون گا بات ھو رھی تھی جس مرض کے جراثیم معلوم ھو چکے ھین ان کا علاج جراثیم مارنے کی بنیاد پہ ھو رھا ھے اور جس مرض کے جراثیم دریافت نہین ھو سکے ان کا علاج پرانی ڈگر پہ یعنی عناصر کی کمی بیشی پہ کیا جا رھا ھے یعنی انسانی اعضاء کی کمزوری کو بھی مد نظر رکھا جاتا ھے اور یہ بات مین پہلے بتا چکا ھون یہ سب کیمیائی عناصر جو خون مین موجود ھوتے ھین ان کی کمی بیشی سے ھوتا ھے افسوس دو کشتیون پہ سواری ھو رھی ھے اور مجھے اس بات پہ بھی افسوس ھے کہ ھمارے طبیب حضرات اندر خانے ایلوپیتھک میڈیسن استعمال کرتے ھین کیون ,,,یہ سب علم کی کمی ھے سچی بات یہ ھے ھر نظریہ علاج کا مطالعہ کیا اپنی توفیق کے مطابق کسی کو. بھی مکمل نہ پایا اور ھر نظریہ علاج کی اصل بنیاد کو مین نے طب یونانی کو ھی پایا کتنی حیرت کی بات ھے اس کے باوجود ھم دوسرون کا سہارا لین اور لیتے ھین اس کا سب سے بڑا سبب مجھے علم کی کمی اور تحقیق کی کمی نظر آئی مین اپیل کرون گا کہ سب حکماء حضرات کثرت سے مطالعہ کرین گے اور تحقیق کیا کرین اب اپنی گفتگو کی طرف آتے ھین جہان تک جراثیم کا تعلق ھے نہ وہ خون کا جزو ھین اور نہ ھی ان کا زھر خون کا حصہ ھین ان کا اثر اعضاء پر ھوتا ھے جس طرح دیگر مادی اور بادی ادویات کا اور زھرون کا اثر ھوتا ھے اس لئے جراثیم اور ان کا زھر خون کا اثر خون مین شامل نہین ھوتا اگر کچھ شامل ھے تو طبعت مدبرہ بدن فطری طور پر ان کو خون سے خارج کر دیتی ھے قوت مدبرہ طاقت ور ھو تو جراثیم اور ان کا زھر نہ جسم اور نہ ھی خون پہ اثر انداز ھو سکتے ھین اور نہ ھی امراض پیدا کر سکتے ھین اس کی مثال انتھریکس جرثومہ ھے جو ھمارے علاقہ مین بے تحاشہ ھونے کے باوجود کبھی کسی کو بیماری کا سبب نہین بنا سکا اور یہی جرثومہ امریکہ مین موت کا سبب بنا ان حقائق سے ثابت ھے کہ مکمل اور مقوی خون اور صحیح تندرست اعضاء کی صورت مین جراثیم اور ان کا زھر ھمیشہ بے اثر ھوتا ھے بہت سے لوگون کے ذھن مین سوال ابھرا ھو گا کہ یہ جراثیم پیدا کس طرح ھوتے ھین سنتے بھی ھم یہی ھین کہ فلان مرض کا فلان جراثیم,,,, یہ مین نوین جماعت بیالوجی کا مضمون پڑھا تھا جس مین براسیکا امیبا پیرامیشیئم وغیرہ جرثومون کے بارے مین ھمین پڑھایا گیا تھا اور پریکٹیکلی دیکھایا بھی گیا تھا کہ متعفن چیز مین جراثیم پیدا ھو جاتے ھین آپ کسی بھی برتن مین پانی ڈالکر اس مین گھاس پھونس ڈالکر رکھ دین چند روز کے بعد مشاھدہ کرین خورد بین مین مذکورہ جراثیم نظر آئین گے یعنی ھر متعفن مادے مین جراثیم ضرور پیدا ھوتے ھین ا ب انسانی جسم مین جہان بھی تعفن پیدا ھو گا تو جراثیم بنین گے طب مین اس کا علاج مادے کو جسم سے خارج کرنا اورایسی دوا غذا دینا کہ جس سے وھان تعفن پیدا ھی نہ ھو ابھی تک شوگر کا جراثیم ملا نہین ورنہ لگ پتہ جاتا اسے,,,باقی مضمون آئیندہ محمود بھٹہ
,,,, شوگر قسط نمبر 12,,,
ھان بات پہنچی تھی جب جراثیم کا انکشاف ھوا تو کیا ھوا
جراثیم کی دریافت سے پہلے ایلوپیتھی کی بنیاد خون کے عناصر کی کمی بیشی پر منحصر تھی جب جراثیم کو مرض کا سبب قرار دیا گیا تو اس وقت سے یہ نظریہ برابر ختم ھونے لگا اب کچھ کچھ غذا پہ اھمیت ایلوپیتھی دے رھی ھے وہ بھی غلط اصولون پہ تھوڑا آگے وضاحت کرون گا بات ھو رھی تھی جس مرض کے جراثیم معلوم ھو چکے ھین ان کا علاج جراثیم مارنے کی بنیاد پہ ھو رھا ھے اور جس مرض کے جراثیم دریافت نہین ھو سکے ان کا علاج پرانی ڈگر پہ یعنی عناصر کی کمی بیشی پہ کیا جا رھا ھے یعنی انسانی اعضاء کی کمزوری کو بھی مد نظر رکھا جاتا ھے اور یہ بات مین پہلے بتا چکا ھون یہ سب کیمیائی عناصر جو خون مین موجود ھوتے ھین ان کی کمی بیشی سے ھوتا ھے افسوس دو کشتیون پہ سواری ھو رھی ھے اور مجھے اس بات پہ بھی افسوس ھے کہ ھمارے طبیب حضرات اندر خانے ایلوپیتھک میڈیسن استعمال کرتے ھین کیون ,,,یہ سب علم کی کمی ھے سچی بات یہ ھے ھر نظریہ علاج کا مطالعہ کیا اپنی توفیق کے مطابق کسی کو. بھی مکمل نہ پایا اور ھر نظریہ علاج کی اصل بنیاد کو مین نے طب یونانی کو ھی پایا کتنی حیرت کی بات ھے اس کے باوجود ھم دوسرون کا سہارا لین اور لیتے ھین اس کا سب سے بڑا سبب مجھے علم کی کمی اور تحقیق کی کمی نظر آئی مین اپیل کرون گا کہ سب حکماء حضرات کثرت سے مطالعہ کرین گے اور تحقیق کیا کرین اب اپنی گفتگو کی طرف آتے ھین جہان تک جراثیم کا تعلق ھے نہ وہ خون کا جزو ھین اور نہ ھی ان کا زھر خون کا حصہ ھین ان کا اثر اعضاء پر ھوتا ھے جس طرح دیگر مادی اور بادی ادویات کا اور زھرون کا اثر ھوتا ھے اس لئے جراثیم اور ان کا زھر خون کا اثر خون مین شامل نہین ھوتا اگر کچھ شامل ھے تو طبعت مدبرہ بدن فطری طور پر ان کو خون سے خارج کر دیتی ھے قوت مدبرہ طاقت ور ھو تو جراثیم اور ان کا زھر نہ جسم اور نہ ھی خون پہ اثر انداز ھو سکتے ھین اور نہ ھی امراض پیدا کر سکتے ھین اس کی مثال انتھریکس جرثومہ ھے جو ھمارے علاقہ مین بے تحاشہ ھونے کے باوجود کبھی کسی کو بیماری کا سبب نہین بنا سکا اور یہی جرثومہ امریکہ مین موت کا سبب بنا ان حقائق سے ثابت ھے کہ مکمل اور مقوی خون اور صحیح تندرست اعضاء کی صورت مین جراثیم اور ان کا زھر ھمیشہ بے اثر ھوتا ھے بہت سے لوگون کے ذھن مین سوال ابھرا ھو گا کہ یہ جراثیم پیدا کس طرح ھوتے ھین سنتے بھی ھم یہی ھین کہ فلان مرض کا فلان جراثیم,,,, یہ مین نوین جماعت بیالوجی کا مضمون پڑھا تھا جس مین براسیکا امیبا پیرامیشیئم وغیرہ جرثومون کے بارے مین ھمین پڑھایا گیا تھا اور پریکٹیکلی دیکھایا بھی گیا تھا کہ متعفن چیز مین جراثیم پیدا ھو جاتے ھین آپ کسی بھی برتن مین پانی ڈالکر اس مین گھاس پھونس ڈالکر رکھ دین چند روز کے بعد مشاھدہ کرین خورد بین مین مذکورہ جراثیم نظر آئین گے یعنی ھر متعفن مادے مین جراثیم ضرور پیدا ھوتے ھین ا ب انسانی جسم مین جہان بھی تعفن پیدا ھو گا تو جراثیم بنین گے طب مین اس کا علاج مادے کو جسم سے خارج کرنا اورایسی دوا غذا دینا کہ جس سے وھان تعفن پیدا ھی نہ ھو ابھی تک شوگر کا جراثیم ملا نہین ورنہ لگ پتہ جاتا اسے,,,باقی مضمون آئیندہ محمود بھٹہ
No comments:
Post a Comment