۔۔۔۔۔۔۔ مطب کا مل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ الرجی یا چھپاکی ۔۔۔۔۔۔
آج تک ایک بات کی سمجھ نہین آئی ۔ ھر نہ سمجھ مین آنی والی بات کو الرجی کیون کہہ دیا جاتا ھے ۔ اب تو لوگون نے بطور محاورہ بھی اسے استعمال کر لیا ھے یار لوگون نے سوچا ھم کیون ڈاکٹرون سے پیچھے رھین ابایک شخص دوسرے کو اچھی نہین لگتی یا کسی کی کوئی ادا کسی کو بری لگی تو تو ادا والے نے یا حامل گفتگو نے بڑے فخریہ لہجے مین دوسرون کو بتایا ۔ بھئی اسے میری اس بات پہ اسے بہت الرجی ھوتی ھے ۔ اب یہان بھی بات سمجھ نہ آئی ۔ بات کرنے والا اپنی بات کو فخریہ انداز مین پیش کر رھا ھوتا ھے اب جسے الرجی ھے وہ سچ مین اس کی اس بات یا عادت سے نفرت کر رھا ھوتا ھے ۔ اب ڈاکٹر حضرات نے اس کی تشریح کچھ یون فرمائی ھے کسی کو چھنک آئی فرمایا الرجی ھے ۔ کسی کو دمہ ھو گیا فرمایا الرجی ھے ۔ کسی کے جسم کے کسی حصہ پہ خارش ھوئی فرما دیا کہ جی بس الرجی ھے کسی کی آنکھ سے پانی بہہ نکلا خواہ اپنے غم سے نکلا ھو حکم صاد ھوا الرجی ھے تفصیل لمبی ھے علی ھذا القیاس ھر نہ سمجھ مین آنے والی بیماری الرجی کہہ دین ویسے کچھ تشریح بھی فرماتے ھے جو ایلوپیتھک مین روحانی شخصیات ھے وہ یون گویا ھوتے ھین ۔۔۔۔ الرجی کا مطلب یہ ھوتا ھے کہ کسی ناگوار مادے کے خلاف جسم کے مدافعانہ نظام کی دفاعی تدبیر و مقابلہ کے نتیجے مین پیدا ھونے والی ھر علامت یہ اندرونی بھی ھو سکتی ھے اور بیرونی بھی ھو سکتی ھے جلد پہ خارش ۔ جلن ۔ تنگی تنفس ۔ سر درد ۔ دوار متلی قے سب الرجی ھین تھوڑی سی کوشش اور کی جاۓ تو گالی بھی الرجی کی قسم ھی ھے یہان تک ایک دوسرے کو پھر خواہ مار بھی دین ۔۔۔ مین نے اس پہ ایک فلم بھی دیکھی تھی جس مین ایک وائرس پیدا ھوتا ھے اور لوگ ایک دوسرے پہ ھی حملہ آور ھوتے ھین اب بھائی بہن کو بہن بھائی کو بیٹا ماں تک باپ تک یعنی رشتہ ختم لوگ بس ایک دوسرے کو مار رھے ھین یہ ھے اس وائرس کا کمال اب فلم کا نام یاد نہین ورنہ ضرور لکھتا ۔۔ مادے کے خلاف جسم کا مدافعانہ نظام بیدار ھو اور طبعت اس کا بہ مائل علاج ھو بات درست ھے یہ نظریہ پتہ نہین کیسے قبول فرما لیا ایلوپیتھک نے۔۔ اسیکے خلاف مدافعتی نظام بیدار کرنے کے کئے ھی ویکسین تیار کی جاتی ھے ۔۔ بات لمبی ھو جاۓ گی یہ پھر کبھی اس پہ مضمون لکھین گے اب موضوع کی طرف آتے ھین پتی اچھلنا یا چھپاکی دو طرح کی ھوتی ھےغور کرین ۔۔ ایک ھے جس مین جسم پر بڑے بڑے گول چپٹے سے ابھار پیدا ھوتے ھین جن مین شدید خارش ھوتی ھے ۔ یہ علامت یکایک پیدا ھوتی ھے اور غائب بھی ھو جایا کرتی ھے اب اس مین آگ کی سی تپش بھی نکلتی ھے اس کا سبب یا تو صفرا کا فساد ھے یا شور بلغم کا ۔ اب جو صفرا کی وجہ سے نکلتی ھے یہ عموما دن کو نکلتی ھے مادے کی تندی کی وجہ سے نکلتی ھے علاج مین صفرا کی تعدیل کرین قے کرائین ٹھنڈی اشیاء دین شربت صندل شربت نیلوفر عرق مکو کاسنی سونف کے ھمراہ املی آلو بخارا زرشک دین یہ دوا بھی بہت مفید ھے ۔۔ تخم کاھو ۔ صندل ۔ نیلوفر ۔ اجوائن خراسانی ۔ گل سرخ ۔ خرفہ ۔ کافور ۔ برابر وزن پیس کر کشنیز کے پانی سے گولیان نخودی بنا لین 2۔۔2۔۔2 ھمراہ پانی دین دوسری قسم جو بلغم کا تعفن ھے یہ عموما رات کو نکلتی ھے اس مین متلی اور قے خود بخود ھو جایا کرتی ھے جسم پہ ظاھر ھونے والے دروڑے سفیدی مائل ھوتے ھین ان مین سوزش نہین ھوتی ھان پانی لگے تو بڑھ جاتے ھین علاج مین ۔۔ جوارش املی دین تیزاب گندھک مین اجوائن بھگو کر تریاق بنائین دو رتی تین دفعہ دین حب صابر دین لونگ 10 گرام دارچینی 30 گرام جاوتری 20 گرام وزن پیس لین 00 زیرو کیپسول بھر کر تین دفعہ دن مین دین
۔۔۔۔۔۔ الرجی یا چھپاکی ۔۔۔۔۔۔
آج تک ایک بات کی سمجھ نہین آئی ۔ ھر نہ سمجھ مین آنی والی بات کو الرجی کیون کہہ دیا جاتا ھے ۔ اب تو لوگون نے بطور محاورہ بھی اسے استعمال کر لیا ھے یار لوگون نے سوچا ھم کیون ڈاکٹرون سے پیچھے رھین ابایک شخص دوسرے کو اچھی نہین لگتی یا کسی کی کوئی ادا کسی کو بری لگی تو تو ادا والے نے یا حامل گفتگو نے بڑے فخریہ لہجے مین دوسرون کو بتایا ۔ بھئی اسے میری اس بات پہ اسے بہت الرجی ھوتی ھے ۔ اب یہان بھی بات سمجھ نہ آئی ۔ بات کرنے والا اپنی بات کو فخریہ انداز مین پیش کر رھا ھوتا ھے اب جسے الرجی ھے وہ سچ مین اس کی اس بات یا عادت سے نفرت کر رھا ھوتا ھے ۔ اب ڈاکٹر حضرات نے اس کی تشریح کچھ یون فرمائی ھے کسی کو چھنک آئی فرمایا الرجی ھے ۔ کسی کو دمہ ھو گیا فرمایا الرجی ھے ۔ کسی کے جسم کے کسی حصہ پہ خارش ھوئی فرما دیا کہ جی بس الرجی ھے کسی کی آنکھ سے پانی بہہ نکلا خواہ اپنے غم سے نکلا ھو حکم صاد ھوا الرجی ھے تفصیل لمبی ھے علی ھذا القیاس ھر نہ سمجھ مین آنے والی بیماری الرجی کہہ دین ویسے کچھ تشریح بھی فرماتے ھے جو ایلوپیتھک مین روحانی شخصیات ھے وہ یون گویا ھوتے ھین ۔۔۔۔ الرجی کا مطلب یہ ھوتا ھے کہ کسی ناگوار مادے کے خلاف جسم کے مدافعانہ نظام کی دفاعی تدبیر و مقابلہ کے نتیجے مین پیدا ھونے والی ھر علامت یہ اندرونی بھی ھو سکتی ھے اور بیرونی بھی ھو سکتی ھے جلد پہ خارش ۔ جلن ۔ تنگی تنفس ۔ سر درد ۔ دوار متلی قے سب الرجی ھین تھوڑی سی کوشش اور کی جاۓ تو گالی بھی الرجی کی قسم ھی ھے یہان تک ایک دوسرے کو پھر خواہ مار بھی دین ۔۔۔ مین نے اس پہ ایک فلم بھی دیکھی تھی جس مین ایک وائرس پیدا ھوتا ھے اور لوگ ایک دوسرے پہ ھی حملہ آور ھوتے ھین اب بھائی بہن کو بہن بھائی کو بیٹا ماں تک باپ تک یعنی رشتہ ختم لوگ بس ایک دوسرے کو مار رھے ھین یہ ھے اس وائرس کا کمال اب فلم کا نام یاد نہین ورنہ ضرور لکھتا ۔۔ مادے کے خلاف جسم کا مدافعانہ نظام بیدار ھو اور طبعت اس کا بہ مائل علاج ھو بات درست ھے یہ نظریہ پتہ نہین کیسے قبول فرما لیا ایلوپیتھک نے۔۔ اسیکے خلاف مدافعتی نظام بیدار کرنے کے کئے ھی ویکسین تیار کی جاتی ھے ۔۔ بات لمبی ھو جاۓ گی یہ پھر کبھی اس پہ مضمون لکھین گے اب موضوع کی طرف آتے ھین پتی اچھلنا یا چھپاکی دو طرح کی ھوتی ھےغور کرین ۔۔ ایک ھے جس مین جسم پر بڑے بڑے گول چپٹے سے ابھار پیدا ھوتے ھین جن مین شدید خارش ھوتی ھے ۔ یہ علامت یکایک پیدا ھوتی ھے اور غائب بھی ھو جایا کرتی ھے اب اس مین آگ کی سی تپش بھی نکلتی ھے اس کا سبب یا تو صفرا کا فساد ھے یا شور بلغم کا ۔ اب جو صفرا کی وجہ سے نکلتی ھے یہ عموما دن کو نکلتی ھے مادے کی تندی کی وجہ سے نکلتی ھے علاج مین صفرا کی تعدیل کرین قے کرائین ٹھنڈی اشیاء دین شربت صندل شربت نیلوفر عرق مکو کاسنی سونف کے ھمراہ املی آلو بخارا زرشک دین یہ دوا بھی بہت مفید ھے ۔۔ تخم کاھو ۔ صندل ۔ نیلوفر ۔ اجوائن خراسانی ۔ گل سرخ ۔ خرفہ ۔ کافور ۔ برابر وزن پیس کر کشنیز کے پانی سے گولیان نخودی بنا لین 2۔۔2۔۔2 ھمراہ پانی دین دوسری قسم جو بلغم کا تعفن ھے یہ عموما رات کو نکلتی ھے اس مین متلی اور قے خود بخود ھو جایا کرتی ھے جسم پہ ظاھر ھونے والے دروڑے سفیدی مائل ھوتے ھین ان مین سوزش نہین ھوتی ھان پانی لگے تو بڑھ جاتے ھین علاج مین ۔۔ جوارش املی دین تیزاب گندھک مین اجوائن بھگو کر تریاق بنائین دو رتی تین دفعہ دین حب صابر دین لونگ 10 گرام دارچینی 30 گرام جاوتری 20 گرام وزن پیس لین 00 زیرو کیپسول بھر کر تین دفعہ دن مین دین
No comments:
Post a Comment