۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔قسط نمبر 53۔۔
پچھلی قسط مین کیمیائی اور مشینی تحریک پہ بحث تھی آج چاھیے تو یہ تھا کہ امراض کی بدن پہ تقسیم پہ لکھتا لیکن اس سے زیادہ اھم بات نفسیاتی مسائل جذبات کی تقسیم قوتون کی تقسیم کیون اور کیسے نفسیاتی مسائل مین بندہ گھرتا ھے اور بہت سی ایسی باتین جن کا ذکر عام طبی کتب مین نہین ملتا بلکہ یکجا نہین ملتا کچھ کی تقسیم منطق کے اصولون مین کردی گئی ھے کچھ کا ذکر فلسفہ حیات مین کردیا گیا ھے کئی ایک موالید ثلاثہ سے منطبق باتین ھین کچھ طبی قوانین مین آجاتی ھین مین ان سب کو یکجا کرنے لگا ھون آپ سوچ رھے ھونگے بلکہ سمجھنے کی کوشش کررھے ھونگے یہ آج کیا لکھ رھے ھین بھئی دوستو یہ مختلف علوم کا ذکر کررھا ھون منطق وہ علم ھے جسے بہت بڑے صرف جید علماء ھی پڑھا کرتے ھین عام عالم دین اسے نہین پڑھ سکتا اس سے زیادہ مین آپ کو بھی نہین بتا سکتا یہ سمجھ لین خطرناک علم ھے باقی فلاسفی علیحدہ باب ھے الحیون الحیوان علیحدہ باب ھے یعنی حقیقت مین یہ سب پڑھنے سے ھی بندہ حکیم بن سکتا ھے ورنہ نہین بن سکتا اور جو نصاب پڑھ کے لوگ دعوے طبیب کردیتے ھین وہ صرف معالج تک محدود ھین حکیم نہین ھین خیر چھوڑین ان باتون کو آپکی سمجھ مین نہین آئین گی اور مین بھی حکیم نہین ھون بس عام سا بندہ ھون جو بات دماغ مین آجاۓ لکھ مارتا ھون ورنہ کچھ بھی نہین ھون نہ ھی کوئی دعوہ ھے علماء سے معذرت۔۔۔ آئیے موضوع پہ چلتے ھین نفسیاتی علوم پہ مشتمل کتب کے مطالعہ سے یہ بات علم مین آتی ھے کہ نفسانی اختلاط وامراض کا علاج ضبط نفس سے ھی ھو سکتا ھے اور جسمانی امراض کے علاج معالجہ کے لئے طب اور طبیب کی ضرورت محسوس ھوتی ھے اب میری بات کو سمجھین طب جسمانی ھو یا روحانی ھو یاد رکھین دونون مین ھی مزاج ونفس وقوی کی ضرورت کے مطابق و موافق ماحول اپنانےاور غذا کے استعمال سے یا بیماری ونفسانی کیفیت کے مخالف ادویہ کے استعمال سے مزاج وکیفیت کو اعتدال پہ لایا جا سکتا ھے
علم طب کا اصول یہ ھے کہ پہلے مرض کی تشخيص وشناخت اور پھر اسباب یعنی جس سے مرض پیدا ھوئی ھے اور اس کے ساتھ ساتھ علامات پہ غور کیا جاتا ھے موسم اور ماحول کو بھی مدنظر رکھا جاتا ھے جیسے آجکل موسم نے پورے ملک مین نزلہ زکام کی وبا پھیلا رکھی ھے اب اس کے بعد علاج تجویز ھوتا ھے
نوٹ۔۔۔مجھے بہت ھی افسوس ھوتا ھے جب لوگ ٹنڈ منڈ سوال لکھ دیتے ھین اور پھر جواب مانگ رھے ھوتے ھین جیسے کل ایک صاحب نے میری کچلہ والی پوسٹ پہ لکھ رکھا تھا کہ کچلہ گردہ کی مرض مین نقصان دیتا ھے پھر جواب نہ ملنے پہ بہت سیخ پا تھا اب خود ھی فیصلہ کر لین گردہ کی تو بے شمار امراض ھین مین غائب کا علم تو جانتا نہین اب بہت سی گردہ کی امراض مین کچلہ استعمال بھی ھوتا ھے اور کچھ مین نہین ھوتا ایسے سوالون سے گریز کیا کرین ھمیشہ پوری بات لکھا کرین
تو دوستو طب نفسانی مین بھی امراض کی تقسیم قوی انسانی کے مطابق تین حصون مین تقسیم ھے
پہلے نمبر پہ آتی ھے قوت تمیز یعنی احساسات کے امراض
یہ امراض احساسات کے تغیر سے پیدا ھوتے ھین اور آپ جانتے ھین احساسات کا تعلق دماغ سے ھوتا ھے یعنی مزاج بلغمی کے امراض ھین
دوسرے نمبر پہ قوت غضبی کے امراض ھین غضب کی طاقت کا تعلق جگر سے ھوتا ھے یہ سب امراض صفراوی ھوا کرتے ھین
تیسرے نمبر پہ قوت شہوی کے امراض ھین یعنی قوت حصولیہ کے امراض یعنی اس مین کسی بھی چیز کے حصول کی شدید خواھش اور رغبت پائی جاتی ھے جس کی عام مثال عشق کی ھے اب سب جانتے ھین عشق کا تعلق مزاج سودا سے ھے یاد رکھین آگے چل کر عاشق کی نبض کی بھی وضاحت کرون گا عشق ویسے تو دو طرح کا ھی ھوتا ھے عشق حقیقی اور عشق مجازی لیکن میرے ایک استاد تھے اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے علم کا سمندر تھے ان سے کلیدین پڑھی اردو ادب کی معراج ان سے سیکھی وہ از راہ مذاق عشق کی تیسری قسم بھی بتاتے تھے جسے آج آپ کسی گیسٹ ھاؤس کے کمرے کا عشق یا آپ اسے موبائل فون کا عشق کہہ سکتے ھین پہلے تو مذاق مین سمجھایا لیکن پھر سنجیدگی سے بھی بتایا ساتھ نفس امارہ نفس لوامہ نفس مطمئنہ کی تشریحات کین اور چودہ طبق روشن کردیے
خیر اس بات کی کچھ تشریح آگے آۓ گی اب موجودہ بات کو سمجھین
مندرجہ تینون قوتون مین سے کسی ایک کے حد اعتدال سے انحراف کا نام مرض ھے چاھے وہ کیفیتی ھو یا خلطی ھو اب یاد رکھین جب ایک قوت مین بے اعتدالی پائی جاۓ گی تو باقی دو بھی متاثر ھوتی ھین یاد رکھین کسی بھی ایک قوت کا ارتقا دوسری قوت کی پستی وخفت کو ظاھر کرتی ھے اسی طرح تیسری قوت مین بھی ایک الگ کیفیت ھی پائی جاۓ گی جو اس کی اصل کارکردگی سے بالکل ھی الگ ھو گی یادرھے مین پچھلی قسط مین تحریک تحلیل اور تسکین کے بارے مین لکھ چکا ھون وھی کیفیات ھوتی ھین وضاحت آگے کردیتا ھون اب ان قوتون کی تقسیم بالمزاج سمجھ لین
پہلی قوت نفسانی یعنی احساسات کی قوت
١۔۔احساساتی غضبی اس کا تعلق اعصابی غدی مزاج سے ھے
٢۔احساساتی حصولی ۔۔اس کا تعلق اعصابی عضلاتی مزاج سے ھے
دوسری قوت شہوی یا حصولی قوت
١۔۔حصولی احساساتی اس کا تعلق عضلاتی اعصابی مزاج سے ھے
٢۔۔حصولی غضبی اس کا تعلق عضلاتی غدی مزاج سے ھے
تیسری قوت غضبی
١۔۔غضبی حصولی اس کا تعلق غدی عضلاتی مزاج سے ھے
٢۔۔غضبی احساساتی اس کا تعلق غدی اعصابی مزاج سے ھے
باقی انشاءاللہ ان سب قوتون کی تشریحات اگلے مضمون مین کرین گے شاید بہت سے دوستو کو میرے آج کے مضمون کی پوری طرح سمجھ نہ آسکے انشاءاللہ جیسے جیسے مضمون آگے بڑھے گا سمجھ مین آجاۓ گا اور اسے سمجھنا بہت ھی ضروری ھے ورنہ طب کے میدان مین بندہ ساری زندگی ٹکرین ھی مارتا رھتا ھے ستر فیصد امراض کا شدید تعلق نفسیات سے ھوتا ھے اور اب بے شمار ایسی امراض بھی آپ کے سامنے آتی ھین جن کے سر پیر کا کسی کو علم ھی نہین ھوتا اور مریض مرض کا شکار ھو کر اذیت مین مبتلا رھتا ھے اب بے شمار ایسے امراض جنہین لوگ جن بھوت پریت سایہ کا نام دے دیتے ھین جبکہ حقیقت مین وہ مرض ھوتی ھے اب ان کی تشخيص اورعلاج کیسے کرنا ھے ان سبکی تشریحات کی جائین گی روحانی امراض اور روح طبعی نفسانی اور حیوانی کیا اور کیسے ھوتی ھین ان سب کا احاطہ علمی بحث مباحثہ سے ھو گا گروپ مطب کامل کو اور مجھے دعاؤن مین یاد رکھیے گا
۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔قسط نمبر 53۔۔
پچھلی قسط مین کیمیائی اور مشینی تحریک پہ بحث تھی آج چاھیے تو یہ تھا کہ امراض کی بدن پہ تقسیم پہ لکھتا لیکن اس سے زیادہ اھم بات نفسیاتی مسائل جذبات کی تقسیم قوتون کی تقسیم کیون اور کیسے نفسیاتی مسائل مین بندہ گھرتا ھے اور بہت سی ایسی باتین جن کا ذکر عام طبی کتب مین نہین ملتا بلکہ یکجا نہین ملتا کچھ کی تقسیم منطق کے اصولون مین کردی گئی ھے کچھ کا ذکر فلسفہ حیات مین کردیا گیا ھے کئی ایک موالید ثلاثہ سے منطبق باتین ھین کچھ طبی قوانین مین آجاتی ھین مین ان سب کو یکجا کرنے لگا ھون آپ سوچ رھے ھونگے بلکہ سمجھنے کی کوشش کررھے ھونگے یہ آج کیا لکھ رھے ھین بھئی دوستو یہ مختلف علوم کا ذکر کررھا ھون منطق وہ علم ھے جسے بہت بڑے صرف جید علماء ھی پڑھا کرتے ھین عام عالم دین اسے نہین پڑھ سکتا اس سے زیادہ مین آپ کو بھی نہین بتا سکتا یہ سمجھ لین خطرناک علم ھے باقی فلاسفی علیحدہ باب ھے الحیون الحیوان علیحدہ باب ھے یعنی حقیقت مین یہ سب پڑھنے سے ھی بندہ حکیم بن سکتا ھے ورنہ نہین بن سکتا اور جو نصاب پڑھ کے لوگ دعوے طبیب کردیتے ھین وہ صرف معالج تک محدود ھین حکیم نہین ھین خیر چھوڑین ان باتون کو آپکی سمجھ مین نہین آئین گی اور مین بھی حکیم نہین ھون بس عام سا بندہ ھون جو بات دماغ مین آجاۓ لکھ مارتا ھون ورنہ کچھ بھی نہین ھون نہ ھی کوئی دعوہ ھے علماء سے معذرت۔۔۔ آئیے موضوع پہ چلتے ھین نفسیاتی علوم پہ مشتمل کتب کے مطالعہ سے یہ بات علم مین آتی ھے کہ نفسانی اختلاط وامراض کا علاج ضبط نفس سے ھی ھو سکتا ھے اور جسمانی امراض کے علاج معالجہ کے لئے طب اور طبیب کی ضرورت محسوس ھوتی ھے اب میری بات کو سمجھین طب جسمانی ھو یا روحانی ھو یاد رکھین دونون مین ھی مزاج ونفس وقوی کی ضرورت کے مطابق و موافق ماحول اپنانےاور غذا کے استعمال سے یا بیماری ونفسانی کیفیت کے مخالف ادویہ کے استعمال سے مزاج وکیفیت کو اعتدال پہ لایا جا سکتا ھے
علم طب کا اصول یہ ھے کہ پہلے مرض کی تشخيص وشناخت اور پھر اسباب یعنی جس سے مرض پیدا ھوئی ھے اور اس کے ساتھ ساتھ علامات پہ غور کیا جاتا ھے موسم اور ماحول کو بھی مدنظر رکھا جاتا ھے جیسے آجکل موسم نے پورے ملک مین نزلہ زکام کی وبا پھیلا رکھی ھے اب اس کے بعد علاج تجویز ھوتا ھے
نوٹ۔۔۔مجھے بہت ھی افسوس ھوتا ھے جب لوگ ٹنڈ منڈ سوال لکھ دیتے ھین اور پھر جواب مانگ رھے ھوتے ھین جیسے کل ایک صاحب نے میری کچلہ والی پوسٹ پہ لکھ رکھا تھا کہ کچلہ گردہ کی مرض مین نقصان دیتا ھے پھر جواب نہ ملنے پہ بہت سیخ پا تھا اب خود ھی فیصلہ کر لین گردہ کی تو بے شمار امراض ھین مین غائب کا علم تو جانتا نہین اب بہت سی گردہ کی امراض مین کچلہ استعمال بھی ھوتا ھے اور کچھ مین نہین ھوتا ایسے سوالون سے گریز کیا کرین ھمیشہ پوری بات لکھا کرین
تو دوستو طب نفسانی مین بھی امراض کی تقسیم قوی انسانی کے مطابق تین حصون مین تقسیم ھے
پہلے نمبر پہ آتی ھے قوت تمیز یعنی احساسات کے امراض
یہ امراض احساسات کے تغیر سے پیدا ھوتے ھین اور آپ جانتے ھین احساسات کا تعلق دماغ سے ھوتا ھے یعنی مزاج بلغمی کے امراض ھین
دوسرے نمبر پہ قوت غضبی کے امراض ھین غضب کی طاقت کا تعلق جگر سے ھوتا ھے یہ سب امراض صفراوی ھوا کرتے ھین
تیسرے نمبر پہ قوت شہوی کے امراض ھین یعنی قوت حصولیہ کے امراض یعنی اس مین کسی بھی چیز کے حصول کی شدید خواھش اور رغبت پائی جاتی ھے جس کی عام مثال عشق کی ھے اب سب جانتے ھین عشق کا تعلق مزاج سودا سے ھے یاد رکھین آگے چل کر عاشق کی نبض کی بھی وضاحت کرون گا عشق ویسے تو دو طرح کا ھی ھوتا ھے عشق حقیقی اور عشق مجازی لیکن میرے ایک استاد تھے اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے علم کا سمندر تھے ان سے کلیدین پڑھی اردو ادب کی معراج ان سے سیکھی وہ از راہ مذاق عشق کی تیسری قسم بھی بتاتے تھے جسے آج آپ کسی گیسٹ ھاؤس کے کمرے کا عشق یا آپ اسے موبائل فون کا عشق کہہ سکتے ھین پہلے تو مذاق مین سمجھایا لیکن پھر سنجیدگی سے بھی بتایا ساتھ نفس امارہ نفس لوامہ نفس مطمئنہ کی تشریحات کین اور چودہ طبق روشن کردیے
خیر اس بات کی کچھ تشریح آگے آۓ گی اب موجودہ بات کو سمجھین
مندرجہ تینون قوتون مین سے کسی ایک کے حد اعتدال سے انحراف کا نام مرض ھے چاھے وہ کیفیتی ھو یا خلطی ھو اب یاد رکھین جب ایک قوت مین بے اعتدالی پائی جاۓ گی تو باقی دو بھی متاثر ھوتی ھین یاد رکھین کسی بھی ایک قوت کا ارتقا دوسری قوت کی پستی وخفت کو ظاھر کرتی ھے اسی طرح تیسری قوت مین بھی ایک الگ کیفیت ھی پائی جاۓ گی جو اس کی اصل کارکردگی سے بالکل ھی الگ ھو گی یادرھے مین پچھلی قسط مین تحریک تحلیل اور تسکین کے بارے مین لکھ چکا ھون وھی کیفیات ھوتی ھین وضاحت آگے کردیتا ھون اب ان قوتون کی تقسیم بالمزاج سمجھ لین
پہلی قوت نفسانی یعنی احساسات کی قوت
١۔۔احساساتی غضبی اس کا تعلق اعصابی غدی مزاج سے ھے
٢۔احساساتی حصولی ۔۔اس کا تعلق اعصابی عضلاتی مزاج سے ھے
دوسری قوت شہوی یا حصولی قوت
١۔۔حصولی احساساتی اس کا تعلق عضلاتی اعصابی مزاج سے ھے
٢۔۔حصولی غضبی اس کا تعلق عضلاتی غدی مزاج سے ھے
تیسری قوت غضبی
١۔۔غضبی حصولی اس کا تعلق غدی عضلاتی مزاج سے ھے
٢۔۔غضبی احساساتی اس کا تعلق غدی اعصابی مزاج سے ھے
باقی انشاءاللہ ان سب قوتون کی تشریحات اگلے مضمون مین کرین گے شاید بہت سے دوستو کو میرے آج کے مضمون کی پوری طرح سمجھ نہ آسکے انشاءاللہ جیسے جیسے مضمون آگے بڑھے گا سمجھ مین آجاۓ گا اور اسے سمجھنا بہت ھی ضروری ھے ورنہ طب کے میدان مین بندہ ساری زندگی ٹکرین ھی مارتا رھتا ھے ستر فیصد امراض کا شدید تعلق نفسیات سے ھوتا ھے اور اب بے شمار ایسی امراض بھی آپ کے سامنے آتی ھین جن کے سر پیر کا کسی کو علم ھی نہین ھوتا اور مریض مرض کا شکار ھو کر اذیت مین مبتلا رھتا ھے اب بے شمار ایسے امراض جنہین لوگ جن بھوت پریت سایہ کا نام دے دیتے ھین جبکہ حقیقت مین وہ مرض ھوتی ھے اب ان کی تشخيص اورعلاج کیسے کرنا ھے ان سبکی تشریحات کی جائین گی روحانی امراض اور روح طبعی نفسانی اور حیوانی کیا اور کیسے ھوتی ھین ان سب کا احاطہ علمی بحث مباحثہ سے ھو گا گروپ مطب کامل کو اور مجھے دعاؤن مین یاد رکھیے گا
No comments:
Post a Comment