۔۔۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔قسط نمبر 54۔۔۔
قوت ارادی+قوت یقین=شعور +لاشعور
آج کی قسط مین نفسیات کی الجھی باتون پہ بحث کرکے سلجھانے کو ھے اوپر والی مساوات کو غور سے دیکھین یہ زندگی کو کسی بھی نہج پہ گزارنے کا اصول ھے اور آج کی پوسٹ مین مین صرف احساس کی امراض پہ بات کرون گا یعنی قوت نفسانی کے امراض پہ بات ھو گی آج کا مضمون تھوڑا اھم بھی ھے بڑے دھیان سے پڑھنا اس سے آپ کو پتہ چلے گا آنسان مختلف قسم کی غیر معمولی حرکتین کرتا ھے جن کی بارے مین آپ سوچ بھی نہین سکتے بلکہ پوری زندگی سوچتے رہ جاتے ھین آئیے پہلے احساتی امراض پہ بحث کرتے ھین جس کا مین پچھلی قسط مین ذکر کر چکا ھون
احساتی امراض یا قوت نفسانی کے امراض
علامہ جلال الدین دوانی نے اس کو قوت تمیز کا نام دیا ھے بلکہ اسی کے تحت بیان فرماتے ھین وہ فرماتے ھین کہ اس قوت مین افراط سے حیرت پیدا ھونے سے معمول کی قوت یقین ڈگمگا جاتی ھے یعنی قوت نفسانی کی زیادتی سے حیرت کی قوت کی زیادتی ھو جانے سے قوت یقین ڈگمگا جاتی ھے
اب طبی طور پر یعنی قانون مفرد اعضاء کے تحت اس تحریک مین شدت پیدا ھونے سے معمول اپنے ادارک فہم کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ھے یعنی پہلے پہل معمولی معمولی باتون کا بتنگڑ بنانا شروع کردیتا ھے اور یہ تحریک بڑھتے بڑھتے ذھنی سوچ بھی حقیقت بننے لگتی ھے یعنی بندہ سوچتا ھے کہ حقیقت مین میری اپنی ذات کچھ اور ھے جبکہ مین نظر کچھ اور آرھا ھون اب ان باتون سے قوت یقین جاتی رھتی ھے یعنی انسان بجاۓ انسان کے خود کو بیل گاۓ کتا یا کچھ بھی جانور سمجھنا شروع کردے یہان یقین کی قوت دو رخ ایک منفی اور ایک مثبت کوئی بھی اختیار کرسکتی ھے اب علماء سے وہ طبقہ جن کو علم منطق پہ عبور ھے وہ میری بات اچھی طرح سمجھ رھے ھین یا جو فلاسفی پہ عبور رکھتے ھین اب یہ الفاظ مین ان کے لئے لکھ رھا ھون ۔۔۔۔ مین بات خمود وبلادت یا جہل بسیط کی کررھا ھون ۔۔۔
اب دوستو بعض باتین آپ کو بتانے سمجھانے والی نہین ھین کیونکہ وہ بات ایسی ھی ھوگی کہ جیسے پہلی جماعت کے بچے کو ایم اے کا نصاب پڑھانا شروع کردون خیر یہ بات بتاۓ دیتا ھون وہ لوگ جو خدائی یا نبوت کا دعوہ کرتے ھین وہ یہی لوگ ھوتے ھین اب ان کے لئے سفاھت کی اصطلاح مستعمل ھے اور آپ طبی لحاظ سے اسے اعصابی غدی تحریک کہتے ھین اب آپ کو علم ھی ھے اعصابی کی ایک دوسری تحریک بھی ھے جسے آپ اعصابی عضلاتی کہتے ھین جو اعصاب کی مشینی تحریک ھے اور آپ کو پچھلی اقساط مین بتا چکا ھون مشینی تحریک کیا ھوتی ھے اب اس اعصابی عضلاتی تحریک مین بندہ بے وقوف احمق پن اور بچون جیسی حرکات کرتا ھے اب ایک نازک سی بات بھی اشارتاً کرنے لگا ھون ذکر اذکار مین وہ مقام جہان لطائف کی منازل شروع ھوتی ھین اب ان مین کچھ منازل بھی ھوا کرتی ھین عموما وہ لوگ جن مین قوت ارادی کی کمی سے قوت یقین کے متزلزل ھونے سے شعور جو پیدا ھوتا ھے وہ مکمل طفلانہ ھو جایا کرتا ھے بلکہ آخری سٹیج لاشعور مین بھی یہی کچھ بیٹھ جانے سے بچگانہ حرکات سکنات کرتا ھے اب یار لوگ اسے بھی پہنچی ھوئی سرکار سے متعارف کروا دیتے ھین یاد رکھین جس کا سینہ بھر گیا وہ سمندر بن جاتا ھے اس مین بغیر کسی وجہ سے طلاطم نہین آیا کرتا خیر یہ آپ کی سمجھ کی باتین نہین ھین اور نہ ھی موضوع ھے بس کچھ علمی وسعت بلکہ آپ کا شعور بہتر کرنے کے لئے سمجھنے والون کے لئے کچھ لکھ دیا اب اگے چلتے ھین
اب سوچنے کی بات ھے اس حیرت وسفاھت کو کنٹرول کیسے کیا جاۓ تو یاد رکھین کیفیت حیرت مین نفس جزم ویقین سے عاجز آجاتا ھے اب ایسی منطقی تدابیر اختیار کرنی چاھیے کہ جن سے حق وباطل مین تمیز ھو سکے اور ایک طرف کا یقین کامل ھو سکے یاد رکھین سفاھت مین مین مبتلا شخص کی بھی عقل درست کام نہین کرسکتی اور معمول یعنی مبتلا شخص اپنی ذات کے علاوہ کسی کو عاقل نہین سمجھتا یعنی اس کے ذھن مین یہ بات سوار رھتی ھے جتنا ذھین اور عقلمند مین ھون اور کوئی نہین ھے بلکہ ھمیشہ دوسرون کا مذاق اڑایا کرتا ھے یعنی دوسرون کی بےوقوفی پہ ماتم کیا کرتا ھے لیکن سچ یہ ھوتا ھے خود وہ ھی بے وقوف ھوتا ھے عقلی فعلی کسی بھی لحاظ سے وہ خود ٹھیک نہین ھوتا یعنی اپنی بے وقوفی کو وہ عقل مندی سمجھتا ھے اور دوسرون کی عقلمندی کو بے وقوفی سمجھتا ھے اب دوستو قصہ مختصر ایسے بندے کی غذا اور دوا اعصابی عضلاتی سے عضلاتی اعصابی کردین انشاءاللہ مادے کی تحلیل سے ضرور صحت جیسی نعمت سے مستفید ھوگا
اب بات کرتے ھین جہل بسیط کی تو دوستو جہل بسیط عدم علم کو کہا جاتا ھے ھان اپنے حق مین علم کا اعتقاد ھو مگر ابتدائی طور پر ایسا ھونا مذموم شمار نہین کیا جاتا کیونکہ علوم کے حصول کے لئے اس درجہ کا پایا جانا لازمی ھوتا ھے اب دوسرے طریقہ سے بات سمجھاتا ھون کیا آپ جانتے ھین منطق کی رو سے بھی انسان حیوان کے زمرے مین آتا ھے تو اس مقام پہ انسان کو غور کرنا چاھیے کہ وہ حیوانات مین افضل کیون ھے تو دوستو یہ سیدھی سیدھی حقیقت ھے کہ انشان کو اشرف المخلوق یعنی شرف ورتبہ صرف صرف عقل وعلم کی بدولت ھے اسلئے وہ جو جہالت کی دنیا مین زندگی گزار رھے ھین وہ حیوانات سے بھی بدتر اور خسیس ھین کیونکہ قدرت کاملہ نے جس کمال کے لئے انہین پیدا کیا ھے اس کے حصول کو کامیاب بنانے والے ھی کامیاب وکامران اور اعلی علین کا مرتبہ حاصل کرنے والے ھوتے ھین جبکہ جاھل وناھنجار اس مرتبہ کے کمال سے عاری وتنگ دست رھتے ھین یاد رکھین جہل بسیط کا علاج پہلی بات حصول علم کی راہ پہ گامزن ھونے مین ھے
بس دوستو باقی مضمون انشاءاللہ اگلی قسط مین یاد رھے آج کی تقریبا تمام بحث مباحثہ اھل علم لوگون کے لئے تھی اگر آپ کی سمجھ مین میری باتین نہ آسکین تو معذرت کیونکہ آج تھوڑی آسان زبان بھی استعمال نہ کر سکا کوشش تو بہت کی ھے لیکن کچھ الفاظ مجبوراً ایسے استعمال کرنے پڑتے ھین جن کا بدل یا مفہوم آسان بتانا بہت ھی مشکل ھوجاتا ھے
۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔قسط نمبر 54۔۔۔
قوت ارادی+قوت یقین=شعور +لاشعور
آج کی قسط مین نفسیات کی الجھی باتون پہ بحث کرکے سلجھانے کو ھے اوپر والی مساوات کو غور سے دیکھین یہ زندگی کو کسی بھی نہج پہ گزارنے کا اصول ھے اور آج کی پوسٹ مین مین صرف احساس کی امراض پہ بات کرون گا یعنی قوت نفسانی کے امراض پہ بات ھو گی آج کا مضمون تھوڑا اھم بھی ھے بڑے دھیان سے پڑھنا اس سے آپ کو پتہ چلے گا آنسان مختلف قسم کی غیر معمولی حرکتین کرتا ھے جن کی بارے مین آپ سوچ بھی نہین سکتے بلکہ پوری زندگی سوچتے رہ جاتے ھین آئیے پہلے احساتی امراض پہ بحث کرتے ھین جس کا مین پچھلی قسط مین ذکر کر چکا ھون
احساتی امراض یا قوت نفسانی کے امراض
علامہ جلال الدین دوانی نے اس کو قوت تمیز کا نام دیا ھے بلکہ اسی کے تحت بیان فرماتے ھین وہ فرماتے ھین کہ اس قوت مین افراط سے حیرت پیدا ھونے سے معمول کی قوت یقین ڈگمگا جاتی ھے یعنی قوت نفسانی کی زیادتی سے حیرت کی قوت کی زیادتی ھو جانے سے قوت یقین ڈگمگا جاتی ھے
اب طبی طور پر یعنی قانون مفرد اعضاء کے تحت اس تحریک مین شدت پیدا ھونے سے معمول اپنے ادارک فہم کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ھے یعنی پہلے پہل معمولی معمولی باتون کا بتنگڑ بنانا شروع کردیتا ھے اور یہ تحریک بڑھتے بڑھتے ذھنی سوچ بھی حقیقت بننے لگتی ھے یعنی بندہ سوچتا ھے کہ حقیقت مین میری اپنی ذات کچھ اور ھے جبکہ مین نظر کچھ اور آرھا ھون اب ان باتون سے قوت یقین جاتی رھتی ھے یعنی انسان بجاۓ انسان کے خود کو بیل گاۓ کتا یا کچھ بھی جانور سمجھنا شروع کردے یہان یقین کی قوت دو رخ ایک منفی اور ایک مثبت کوئی بھی اختیار کرسکتی ھے اب علماء سے وہ طبقہ جن کو علم منطق پہ عبور ھے وہ میری بات اچھی طرح سمجھ رھے ھین یا جو فلاسفی پہ عبور رکھتے ھین اب یہ الفاظ مین ان کے لئے لکھ رھا ھون ۔۔۔۔ مین بات خمود وبلادت یا جہل بسیط کی کررھا ھون ۔۔۔
اب دوستو بعض باتین آپ کو بتانے سمجھانے والی نہین ھین کیونکہ وہ بات ایسی ھی ھوگی کہ جیسے پہلی جماعت کے بچے کو ایم اے کا نصاب پڑھانا شروع کردون خیر یہ بات بتاۓ دیتا ھون وہ لوگ جو خدائی یا نبوت کا دعوہ کرتے ھین وہ یہی لوگ ھوتے ھین اب ان کے لئے سفاھت کی اصطلاح مستعمل ھے اور آپ طبی لحاظ سے اسے اعصابی غدی تحریک کہتے ھین اب آپ کو علم ھی ھے اعصابی کی ایک دوسری تحریک بھی ھے جسے آپ اعصابی عضلاتی کہتے ھین جو اعصاب کی مشینی تحریک ھے اور آپ کو پچھلی اقساط مین بتا چکا ھون مشینی تحریک کیا ھوتی ھے اب اس اعصابی عضلاتی تحریک مین بندہ بے وقوف احمق پن اور بچون جیسی حرکات کرتا ھے اب ایک نازک سی بات بھی اشارتاً کرنے لگا ھون ذکر اذکار مین وہ مقام جہان لطائف کی منازل شروع ھوتی ھین اب ان مین کچھ منازل بھی ھوا کرتی ھین عموما وہ لوگ جن مین قوت ارادی کی کمی سے قوت یقین کے متزلزل ھونے سے شعور جو پیدا ھوتا ھے وہ مکمل طفلانہ ھو جایا کرتا ھے بلکہ آخری سٹیج لاشعور مین بھی یہی کچھ بیٹھ جانے سے بچگانہ حرکات سکنات کرتا ھے اب یار لوگ اسے بھی پہنچی ھوئی سرکار سے متعارف کروا دیتے ھین یاد رکھین جس کا سینہ بھر گیا وہ سمندر بن جاتا ھے اس مین بغیر کسی وجہ سے طلاطم نہین آیا کرتا خیر یہ آپ کی سمجھ کی باتین نہین ھین اور نہ ھی موضوع ھے بس کچھ علمی وسعت بلکہ آپ کا شعور بہتر کرنے کے لئے سمجھنے والون کے لئے کچھ لکھ دیا اب اگے چلتے ھین
اب سوچنے کی بات ھے اس حیرت وسفاھت کو کنٹرول کیسے کیا جاۓ تو یاد رکھین کیفیت حیرت مین نفس جزم ویقین سے عاجز آجاتا ھے اب ایسی منطقی تدابیر اختیار کرنی چاھیے کہ جن سے حق وباطل مین تمیز ھو سکے اور ایک طرف کا یقین کامل ھو سکے یاد رکھین سفاھت مین مین مبتلا شخص کی بھی عقل درست کام نہین کرسکتی اور معمول یعنی مبتلا شخص اپنی ذات کے علاوہ کسی کو عاقل نہین سمجھتا یعنی اس کے ذھن مین یہ بات سوار رھتی ھے جتنا ذھین اور عقلمند مین ھون اور کوئی نہین ھے بلکہ ھمیشہ دوسرون کا مذاق اڑایا کرتا ھے یعنی دوسرون کی بےوقوفی پہ ماتم کیا کرتا ھے لیکن سچ یہ ھوتا ھے خود وہ ھی بے وقوف ھوتا ھے عقلی فعلی کسی بھی لحاظ سے وہ خود ٹھیک نہین ھوتا یعنی اپنی بے وقوفی کو وہ عقل مندی سمجھتا ھے اور دوسرون کی عقلمندی کو بے وقوفی سمجھتا ھے اب دوستو قصہ مختصر ایسے بندے کی غذا اور دوا اعصابی عضلاتی سے عضلاتی اعصابی کردین انشاءاللہ مادے کی تحلیل سے ضرور صحت جیسی نعمت سے مستفید ھوگا
اب بات کرتے ھین جہل بسیط کی تو دوستو جہل بسیط عدم علم کو کہا جاتا ھے ھان اپنے حق مین علم کا اعتقاد ھو مگر ابتدائی طور پر ایسا ھونا مذموم شمار نہین کیا جاتا کیونکہ علوم کے حصول کے لئے اس درجہ کا پایا جانا لازمی ھوتا ھے اب دوسرے طریقہ سے بات سمجھاتا ھون کیا آپ جانتے ھین منطق کی رو سے بھی انسان حیوان کے زمرے مین آتا ھے تو اس مقام پہ انسان کو غور کرنا چاھیے کہ وہ حیوانات مین افضل کیون ھے تو دوستو یہ سیدھی سیدھی حقیقت ھے کہ انشان کو اشرف المخلوق یعنی شرف ورتبہ صرف صرف عقل وعلم کی بدولت ھے اسلئے وہ جو جہالت کی دنیا مین زندگی گزار رھے ھین وہ حیوانات سے بھی بدتر اور خسیس ھین کیونکہ قدرت کاملہ نے جس کمال کے لئے انہین پیدا کیا ھے اس کے حصول کو کامیاب بنانے والے ھی کامیاب وکامران اور اعلی علین کا مرتبہ حاصل کرنے والے ھوتے ھین جبکہ جاھل وناھنجار اس مرتبہ کے کمال سے عاری وتنگ دست رھتے ھین یاد رکھین جہل بسیط کا علاج پہلی بات حصول علم کی راہ پہ گامزن ھونے مین ھے
بس دوستو باقی مضمون انشاءاللہ اگلی قسط مین یاد رھے آج کی تقریبا تمام بحث مباحثہ اھل علم لوگون کے لئے تھی اگر آپ کی سمجھ مین میری باتین نہ آسکین تو معذرت کیونکہ آج تھوڑی آسان زبان بھی استعمال نہ کر سکا کوشش تو بہت کی ھے لیکن کچھ الفاظ مجبوراً ایسے استعمال کرنے پڑتے ھین جن کا بدل یا مفہوم آسان بتانا بہت ھی مشکل ھوجاتا ھے
No comments:
Post a Comment