۔۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔قسط نمبر 55۔۔
قوت شہوی یعنی حصولیہ قوت کے امراض
پچھلی قسط مین احساساتی یعنی نفسانی قوت کی امراض پہ بحث تھی اور جہل بسیط پہ بات ختم ھوئی تھی آپ کو یاد ھو گا جہل بسیط اعصابی عضلاتی مین آتا ھے صاف ظاھر ھے آج ھم تحریک کے حساب سے عضلاتی اعصابی تحریک کا ذکر آج شروع کرین گے اور اسے جہل مرکب بھی کہا جاتا ھے سب سے پہلے اس کی صفات عرض کرتا ھون قوت شہوی اعصابی یعنی نفسانی قوت کی ردات سے نفس مکمل طور پر عضلاتی اعصابی کیفیت جب اختیار کرجاتا ھے تو اس کے معمول کو علوم کا شوق جاگزین ھوتا ھے جن سے کمال حقیقی پیدا نہ ھو جیسے علم جدل یعنی لڑائی ۔۔۔۔۔ کہانت یعنی غیب کی باتین بتانا۔۔۔۔۔ رمالی یعنی علم نجون ورمل ۔۔۔۔۔۔اس قسم کی کیفیت پیدا ھوتی ھے اسے آپ جہل مرکب کہتے ھین یا آپ اسے جہل بسیط کی صورت ثانیہ بھی کہہ سکتے ھین یا دوسرے لفظون مین اعصابی یعنی بلغمی رطوبات غلیظ ھوکر سوداوی شکل اختیار کر جاتی ھین اور قوت نفس ھٹ دھرمی کو اپنا اوڑھنا پچھونا بنا لیتی ھے میری اس ساری بات سے مراد یہ ھے کہ جہالت عقل وعلم کے مترادف کیفیت کو گردانا جاتا ھے اور یاد رکھین جہالت ھی کی بدولت ظلمت کے بادل امڈتے ھین یہ بھی یاد رکھین ظلمت سے سیاھی وسوداویت کے ناطے عقل وشعور باطل ھو جایا کرتا ھے اس تحریک مین سوداویت کا غلعبہ آچکا ھوتا ھے تو لازمی بات ھے اعصابی یعنی دماغی قوی مین تحلیل واقع ھو گی اور غدد کے نظام مین تسکین ھو گی یعنی اپنی تندی اور گرمی کے باعث عقل مین جلا پیدا کرنے سے قاصر اور معالجہ کے لئے جہان تادیب کی ضرورت ھے وھان غذائی معالجہ کے لئے ایسی غذائین استعمال کرنا ھونگی جن سے غدد یعنی جگر کے نظام مین سستی کے بجاۓ تیزی پیدا ھو سکے اور جسم مین حرارت زیادہ پیدا ھو تاکہ عضلاتی نظام کی بھی گڑ بڑ درست سمت اختیار کرسکے
اب تھوڑی سی مذید وضاحت جہل مرکب کے بارے مین
جہل مرکب ایک ایسی کیفیت کا نام ھے جس کے بارے مین یون بھی کہا جا سکتا ھے کہ اس مین مبتلا شخص اصل واقع کے خلاف اعتقاد رکھتا ھو اور اپنے ناقص علم کو اصل پہ ترجیح دیتا ھو یاد رکھین اس کیفیت کا حامل شخص اپنی نادانگی کا علم بھی نہین رکھتا چونکہ اس کیفیت مین یہ بات لازم ھے کہ اس مین اپنی نادانستگی و ناآگہی کا علم بھی نہین ھوتا اسی لئے اسے جہل مرکب کی صفت سے موسوم کیا جاتا ھے طب یونانی کے ماھرین نے اعضائے رئیسہ دل دماغ اور جگر پہ ھی اتفاق کیا لیکن اب فتنون کا دور ھے اور بعض حکماء نے عورتون مین رحم کو اور مردون مین خصیون کو چوتھا اعضائے رئیسہ قرار دے کر قانون ثلاثہ کی جگہ قانون اربعہ کو فروغ دینا چاھا جس سے طب قدیم کی بنیادین ھلا کررکھ دین ایک عجیب منافقت پیدا کی گئی اب یہان اللہ تعالی نے صابر ملتانی کو اس کام کے لئے چن لیا اور طب قدیم کے ھی اصول قانون ثلاثہ پہ تشریحات کرکے ایک جدت پیدا کردی اور قانون اربعہ کا منہ بند کیا لیکن افسوس اب نئے سرے سے یہ فتنہ طب مین دوبارہ پیدا کیا گیا ھے انشاءاللہ اس پہ تفصیل سے مضامین لکھون گا باقاعدہ تاریخوں کے حساب سے اور آپ کو بتاؤن گا کہ اصل طب کو چارون اطراف سے گھیرنے کے لئے کیا کیا حربے استعمال کیے گئے اور مزے کی بات وقت اور وقت کے حاکمین بھی اس مین ملوث رھے ھین اور آج بھی یہ جنگ جاری ھے اسی لئے نیا پڑھنے والا طبیب دو کشتیون مین سوار ھوتا ھے اسے علم ھی نہین ھوتا کہ مین حقیقت مین کس کشتی پہ سوار ھون اور میری منزل کہان ھے اور پوری زندگی وہ منزل پہ کبھی بھی نہین پہنچ سکتا سنجیدگی اور بردباری کا تو نام ونشان ھی نہین اور نہ اخلاق وتہذیب کا دامن تھامنے کو تیار ھین بس جذباتی باتین کین اور اندر سے چوھا نکال کر ھاتھ مین تھمادین گے
اگر اعضائے رئیسہ کو چار مان ھی لیا جاۓ تو لازمی طور پہ قوی کو بھی چار ھی بنانا پڑے گا جو ناممکن ھے اس طرح یون معلوم ھوتا ھے کہ ایساسوچنے اورلکھنے والے علم ریاضی کوتو جانتے ھی نہین ھین انہین علم ھی نہین ھے کہ اعضائے رئیسہ کا روح قوت اور نفس کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ھے اب ان تینون کی باھمی مشاورت ھی سے احساسات وخلیات نیز اخلاط اپنی اپنی شکلون کا لبادہ اوڑھتے ھین
بہت سے اطباء وعلماء کے نزدیک لاعلاج مرض ھے مگر جس علاج سے کچھ فائدہ ھے وہ علم ریاضی ھے یعنی حساب اور ھندسہ وغیرہ کا سیکھنا ھے کیونکہ اس کے مریض کے مطالب پورے ھونے سے نفس مین لذت پیدا ھوتی ھے یقین پیدا ھوتا ھے اور پھر جب اپنے معتقدات مین یہ لذت نہین ملتی تو غلطی کا علم ھو جاتا ھے اورجہل مرکب جہل بسیط سے تبدیل ھوکر اکتساب فضائل کی استعدادپیداھوجاتی ھے یادرھےحکیم افلاطون نے بھی اپنے دروازے پہ لکھ رکھاتھاجوعلم ھندسہ نہین جانتاوہ یہان داخل نہین ھوسکتا
کیاخیال ھے پھرایک طبیب کوریاضی دان بھی ھوناچاھیے؟جی ھان ھوناچاھیے
باقی تشریح قوت شہوی کی اگلی قسط مین
۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔قسط نمبر 55۔۔
قوت شہوی یعنی حصولیہ قوت کے امراض
پچھلی قسط مین احساساتی یعنی نفسانی قوت کی امراض پہ بحث تھی اور جہل بسیط پہ بات ختم ھوئی تھی آپ کو یاد ھو گا جہل بسیط اعصابی عضلاتی مین آتا ھے صاف ظاھر ھے آج ھم تحریک کے حساب سے عضلاتی اعصابی تحریک کا ذکر آج شروع کرین گے اور اسے جہل مرکب بھی کہا جاتا ھے سب سے پہلے اس کی صفات عرض کرتا ھون قوت شہوی اعصابی یعنی نفسانی قوت کی ردات سے نفس مکمل طور پر عضلاتی اعصابی کیفیت جب اختیار کرجاتا ھے تو اس کے معمول کو علوم کا شوق جاگزین ھوتا ھے جن سے کمال حقیقی پیدا نہ ھو جیسے علم جدل یعنی لڑائی ۔۔۔۔۔ کہانت یعنی غیب کی باتین بتانا۔۔۔۔۔ رمالی یعنی علم نجون ورمل ۔۔۔۔۔۔اس قسم کی کیفیت پیدا ھوتی ھے اسے آپ جہل مرکب کہتے ھین یا آپ اسے جہل بسیط کی صورت ثانیہ بھی کہہ سکتے ھین یا دوسرے لفظون مین اعصابی یعنی بلغمی رطوبات غلیظ ھوکر سوداوی شکل اختیار کر جاتی ھین اور قوت نفس ھٹ دھرمی کو اپنا اوڑھنا پچھونا بنا لیتی ھے میری اس ساری بات سے مراد یہ ھے کہ جہالت عقل وعلم کے مترادف کیفیت کو گردانا جاتا ھے اور یاد رکھین جہالت ھی کی بدولت ظلمت کے بادل امڈتے ھین یہ بھی یاد رکھین ظلمت سے سیاھی وسوداویت کے ناطے عقل وشعور باطل ھو جایا کرتا ھے اس تحریک مین سوداویت کا غلعبہ آچکا ھوتا ھے تو لازمی بات ھے اعصابی یعنی دماغی قوی مین تحلیل واقع ھو گی اور غدد کے نظام مین تسکین ھو گی یعنی اپنی تندی اور گرمی کے باعث عقل مین جلا پیدا کرنے سے قاصر اور معالجہ کے لئے جہان تادیب کی ضرورت ھے وھان غذائی معالجہ کے لئے ایسی غذائین استعمال کرنا ھونگی جن سے غدد یعنی جگر کے نظام مین سستی کے بجاۓ تیزی پیدا ھو سکے اور جسم مین حرارت زیادہ پیدا ھو تاکہ عضلاتی نظام کی بھی گڑ بڑ درست سمت اختیار کرسکے
اب تھوڑی سی مذید وضاحت جہل مرکب کے بارے مین
جہل مرکب ایک ایسی کیفیت کا نام ھے جس کے بارے مین یون بھی کہا جا سکتا ھے کہ اس مین مبتلا شخص اصل واقع کے خلاف اعتقاد رکھتا ھو اور اپنے ناقص علم کو اصل پہ ترجیح دیتا ھو یاد رکھین اس کیفیت کا حامل شخص اپنی نادانگی کا علم بھی نہین رکھتا چونکہ اس کیفیت مین یہ بات لازم ھے کہ اس مین اپنی نادانستگی و ناآگہی کا علم بھی نہین ھوتا اسی لئے اسے جہل مرکب کی صفت سے موسوم کیا جاتا ھے طب یونانی کے ماھرین نے اعضائے رئیسہ دل دماغ اور جگر پہ ھی اتفاق کیا لیکن اب فتنون کا دور ھے اور بعض حکماء نے عورتون مین رحم کو اور مردون مین خصیون کو چوتھا اعضائے رئیسہ قرار دے کر قانون ثلاثہ کی جگہ قانون اربعہ کو فروغ دینا چاھا جس سے طب قدیم کی بنیادین ھلا کررکھ دین ایک عجیب منافقت پیدا کی گئی اب یہان اللہ تعالی نے صابر ملتانی کو اس کام کے لئے چن لیا اور طب قدیم کے ھی اصول قانون ثلاثہ پہ تشریحات کرکے ایک جدت پیدا کردی اور قانون اربعہ کا منہ بند کیا لیکن افسوس اب نئے سرے سے یہ فتنہ طب مین دوبارہ پیدا کیا گیا ھے انشاءاللہ اس پہ تفصیل سے مضامین لکھون گا باقاعدہ تاریخوں کے حساب سے اور آپ کو بتاؤن گا کہ اصل طب کو چارون اطراف سے گھیرنے کے لئے کیا کیا حربے استعمال کیے گئے اور مزے کی بات وقت اور وقت کے حاکمین بھی اس مین ملوث رھے ھین اور آج بھی یہ جنگ جاری ھے اسی لئے نیا پڑھنے والا طبیب دو کشتیون مین سوار ھوتا ھے اسے علم ھی نہین ھوتا کہ مین حقیقت مین کس کشتی پہ سوار ھون اور میری منزل کہان ھے اور پوری زندگی وہ منزل پہ کبھی بھی نہین پہنچ سکتا سنجیدگی اور بردباری کا تو نام ونشان ھی نہین اور نہ اخلاق وتہذیب کا دامن تھامنے کو تیار ھین بس جذباتی باتین کین اور اندر سے چوھا نکال کر ھاتھ مین تھمادین گے
اگر اعضائے رئیسہ کو چار مان ھی لیا جاۓ تو لازمی طور پہ قوی کو بھی چار ھی بنانا پڑے گا جو ناممکن ھے اس طرح یون معلوم ھوتا ھے کہ ایساسوچنے اورلکھنے والے علم ریاضی کوتو جانتے ھی نہین ھین انہین علم ھی نہین ھے کہ اعضائے رئیسہ کا روح قوت اور نفس کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ھے اب ان تینون کی باھمی مشاورت ھی سے احساسات وخلیات نیز اخلاط اپنی اپنی شکلون کا لبادہ اوڑھتے ھین
بہت سے اطباء وعلماء کے نزدیک لاعلاج مرض ھے مگر جس علاج سے کچھ فائدہ ھے وہ علم ریاضی ھے یعنی حساب اور ھندسہ وغیرہ کا سیکھنا ھے کیونکہ اس کے مریض کے مطالب پورے ھونے سے نفس مین لذت پیدا ھوتی ھے یقین پیدا ھوتا ھے اور پھر جب اپنے معتقدات مین یہ لذت نہین ملتی تو غلطی کا علم ھو جاتا ھے اورجہل مرکب جہل بسیط سے تبدیل ھوکر اکتساب فضائل کی استعدادپیداھوجاتی ھے یادرھےحکیم افلاطون نے بھی اپنے دروازے پہ لکھ رکھاتھاجوعلم ھندسہ نہین جانتاوہ یہان داخل نہین ھوسکتا
کیاخیال ھے پھرایک طبیب کوریاضی دان بھی ھوناچاھیے؟جی ھان ھوناچاھیے
باقی تشریح قوت شہوی کی اگلی قسط مین
No comments:
Post a Comment