۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔تشخیص امراض ومزاج ۔۔۔۔قسط نمبر 14۔۔۔۔
آج بات کرتے ھین حکم نمبر ١١کی
حکم نمبر ١١۔۔۔۔اگر دونون آنکھون کے کسی ایک پپوٹہ پر اخروٹ کی مانند سیاہ رنگ کی پھنسی پیدا ھو جاۓ تو سمجھ لین مریض ابتداۓ مرض سے دوروز مین ھلاک ھو جاۓ گا اب اس کی علامات مین نیند کا غلبہ بہت زیادہ ھو گا یہ لکھا ھے جدید تحقیق مین یہ بھی عضلاتی غدی تحریک کی پیداوار ھے اب نیند کا غلبہ دماغ کے مفلوج ھو جانے سے ھوتا ھے اب بہت سون کے دماغ مین یہ سوال ضرور ھے اب دائین آنکھ تو فلان مزاج مین آتی ھے اور بائین آنکھ فلان مزاج مین آتی ھے آپ کثرت مطالعہ کیا کرین یاد رکھین اب جو علامت لکھی ھے کہ نیند کا غلبہ بہت زیادہ ھو گا تو دوستو عضلاتی غدی ھی تحریک مین دماغ مین شدید تحلیل ھوا کرتی ھے موت تو اس وجہ سے ھو رھی ھے انشاءاللہ آگے چل کر دائین اور بائین تحریک کی ھم اور جدید طریقہ سے تشریح کرین گے جو بہت سے لوگون کی آنکھین کھول دی جائین گی جو نظریہ کی بھی غلط انداز مین آج تک تشریح کرتے رھے ھین مین نے دیکھا ھے بہت سے لوگون نے نظریہ مین بھی شدید ابہام پیدا کیے ھین تاکہ نہ کوئی سمجھے نہ ھمین خود سمجھ آئے ایسے لوگ بڑے ھی شریف ھوا کرتے ھین خیر روز محشر مین حساب کتاب ھوتا رھے گا
حکم نمبر ١٢۔۔۔ اگر کسی شخص کے دونون نتھنون سے سرخ زردی مائل خون بہے اور اس کے دائین ھاتھ مین سفیدی مائل پھنسی پیدا ھو جاۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(یاد رکھین طب قدیم مین اسے مرض سقروس کہتے ھین اور یہ بلغمی ورم کہلاتی ھے) ۔۔۔۔۔۔۔اور اس پھنسی مین درد بھی نہ ھو تو سمجھ لین مریض ابتداۓ مرض کے دن سے لے کر تین روز مین مرجاۓ گا اور اس کی علامت یہ ھوتی ھے کہ مریض کو ابتداۓ مرض سے ھی کھانے کی خواھش نہین رھتی
ان جدید تشریح کچھ یون ھے ایسا مریض جس کو خون معدہ کے اوپر والے اعضاء سے آتا ھے تو یہ عضلاتی اعصابی تحریک ھوتی ھے ویسے بھی جو ظاھری تقسیم جسم انسانی کی ھے اس کی رو سے دائین بازو مین بھی عضلاتی اعصابی ھی تحریک ھوا کرتی ھے آپ کو یہ تو علم ھو گا ھی کہ عضلاتی اعصابی تحریک کیمیاوی تحریک ھوا کرتی ھے اور اس مین شدت نہین ھوا کرتی تو لازما اس تحریک سے پیدا شدہ ورم یا پھنسی مین درد نہین ھوا کرتا اب خود ھی غور کر لین کہ کیا ھزارون سال پہلے واقعی حکم بقراط جدید طبی بنیاد کو جانتا سمجھتا تھا اگر میری بات دلائل سے آپ کو درست لگے تو یہ آج کے بستہ ۔۔ب ۔۔ کے حکماء کیسے اس کی مخالفت کرتے ھین سچ مین کہین تو لازما فہم فراست اور طب پہ عبور یا علمی قابلیت یا مطالعہ مین شدید کمی ھی وجہ ھو سکتی ھے ان انگریز کی ایک ادا سے مین بہت ھی الفت رکھتا ھون کوئی بھی شخص کسی بھی مخصوص جگہ پہ کھڑا ھوکر اپنی تقریر مین اپنا نظریہ پیش کرے خواہ مکمل طور پہ وہ شخص غلط بات کررھا ھون تو سامعین خاموشی سے اس کی بات سنین گے اور اسے کبھی بھی برا یا بھلا نہین کہین گے بلکہ اپنے اپنے راستہ پہ ھو لین گے اب گھر جاکر وہ لوگ سکون سے اس کی باتون پہ غور کرین گے اگر بات درست ھوئی تو اسی مقام پہ آکر بلاجھجھک اس کے نظریات اور عقائد سے متفق ھونے کا اعلان کرین گے اگر غلط بات ھے تب بھی وہ اسے غلط نہین کہین گے بلکہ سوالات کرین اور اپنے دلائل اور اس کے دلائل سے فیصلہ کرین گے ھماری قوم کا المیہ ھے بغیر سوچے سمجھے اگلے کا سر کلہاڑی سے دو ٹکڑے کردیتے ھین
بات کررھا تھا اس پھنسی مین درد نہین ھوتایاد رکھین یہ بالکل اسی طرح کی پھنسی ھے جیسے خارش یا چنبل مین ھوتی ھے اس مین قدرے سفیدی ھوتی ھے ھان درد کے بجائے ان مین لذت ھوتی ھے اور یاد رھے بندہ پھنسی کی وجہ نہین مرتا بلکہ اخراج خون کی وجہ سے مرتا ھے بشرطیکہ کوئی انتظام خون روکنے کا نہ ھو
حکم نمبر ١٣۔۔۔اگر کسی مریض کی بائین طرف ران مین شدید سرخی پیدا ھو جاۓ اور اس مین درد نہ ھو اور اس کی لمبائی تین انگل ھو تو سمجھ لین مریض ابتداۓ مرض سے پچیس روز کے اندر ھلاک ھو جاۓ گا اس کی خاص علامت یہ ھے کہ ابتدا مرض مین مریض کو شدید خارش ھوگی ساگ پات اور ترکاریان کھانے کی خواھش کرے گا
اب جدید تشریح ۔۔کسی جگہ کا شدید سرخ ھوجانا عضلاتی غدی تحریک مین ھوا کرتا ھے اس تحریک کی شدت سے کسی بھی مقام سے شریان پھٹ سکتی ھے انہی شریانون کا نکلا ھوا خون اس مقام کو سرخ کردیتا ھے اب اس مقام پہ ورم تو ھوتا نہین اس لئے درد بھی نہین ھوا کرتا اس تحریک مین خشکی کی شدت ھوتی ھے اس لئے مریض کوشدید خارش ھوا کرتی ھے اب ساگ اور اس جیسی کچی ترکاریان سوداوی اثرات کی حامل ھوتی ھین اس لئے مریض ان کو کھانے کی طبعی خواھش کرتا ھے
باقی مضمون انشاءاللہ اگلی قسط مین آپکا خادم محمود بھٹہ
۔۔تشخیص امراض ومزاج ۔۔۔۔قسط نمبر 14۔۔۔۔
آج بات کرتے ھین حکم نمبر ١١کی
حکم نمبر ١١۔۔۔۔اگر دونون آنکھون کے کسی ایک پپوٹہ پر اخروٹ کی مانند سیاہ رنگ کی پھنسی پیدا ھو جاۓ تو سمجھ لین مریض ابتداۓ مرض سے دوروز مین ھلاک ھو جاۓ گا اب اس کی علامات مین نیند کا غلبہ بہت زیادہ ھو گا یہ لکھا ھے جدید تحقیق مین یہ بھی عضلاتی غدی تحریک کی پیداوار ھے اب نیند کا غلبہ دماغ کے مفلوج ھو جانے سے ھوتا ھے اب بہت سون کے دماغ مین یہ سوال ضرور ھے اب دائین آنکھ تو فلان مزاج مین آتی ھے اور بائین آنکھ فلان مزاج مین آتی ھے آپ کثرت مطالعہ کیا کرین یاد رکھین اب جو علامت لکھی ھے کہ نیند کا غلبہ بہت زیادہ ھو گا تو دوستو عضلاتی غدی ھی تحریک مین دماغ مین شدید تحلیل ھوا کرتی ھے موت تو اس وجہ سے ھو رھی ھے انشاءاللہ آگے چل کر دائین اور بائین تحریک کی ھم اور جدید طریقہ سے تشریح کرین گے جو بہت سے لوگون کی آنکھین کھول دی جائین گی جو نظریہ کی بھی غلط انداز مین آج تک تشریح کرتے رھے ھین مین نے دیکھا ھے بہت سے لوگون نے نظریہ مین بھی شدید ابہام پیدا کیے ھین تاکہ نہ کوئی سمجھے نہ ھمین خود سمجھ آئے ایسے لوگ بڑے ھی شریف ھوا کرتے ھین خیر روز محشر مین حساب کتاب ھوتا رھے گا
حکم نمبر ١٢۔۔۔ اگر کسی شخص کے دونون نتھنون سے سرخ زردی مائل خون بہے اور اس کے دائین ھاتھ مین سفیدی مائل پھنسی پیدا ھو جاۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(یاد رکھین طب قدیم مین اسے مرض سقروس کہتے ھین اور یہ بلغمی ورم کہلاتی ھے) ۔۔۔۔۔۔۔اور اس پھنسی مین درد بھی نہ ھو تو سمجھ لین مریض ابتداۓ مرض کے دن سے لے کر تین روز مین مرجاۓ گا اور اس کی علامت یہ ھوتی ھے کہ مریض کو ابتداۓ مرض سے ھی کھانے کی خواھش نہین رھتی
ان جدید تشریح کچھ یون ھے ایسا مریض جس کو خون معدہ کے اوپر والے اعضاء سے آتا ھے تو یہ عضلاتی اعصابی تحریک ھوتی ھے ویسے بھی جو ظاھری تقسیم جسم انسانی کی ھے اس کی رو سے دائین بازو مین بھی عضلاتی اعصابی ھی تحریک ھوا کرتی ھے آپ کو یہ تو علم ھو گا ھی کہ عضلاتی اعصابی تحریک کیمیاوی تحریک ھوا کرتی ھے اور اس مین شدت نہین ھوا کرتی تو لازما اس تحریک سے پیدا شدہ ورم یا پھنسی مین درد نہین ھوا کرتا اب خود ھی غور کر لین کہ کیا ھزارون سال پہلے واقعی حکم بقراط جدید طبی بنیاد کو جانتا سمجھتا تھا اگر میری بات دلائل سے آپ کو درست لگے تو یہ آج کے بستہ ۔۔ب ۔۔ کے حکماء کیسے اس کی مخالفت کرتے ھین سچ مین کہین تو لازما فہم فراست اور طب پہ عبور یا علمی قابلیت یا مطالعہ مین شدید کمی ھی وجہ ھو سکتی ھے ان انگریز کی ایک ادا سے مین بہت ھی الفت رکھتا ھون کوئی بھی شخص کسی بھی مخصوص جگہ پہ کھڑا ھوکر اپنی تقریر مین اپنا نظریہ پیش کرے خواہ مکمل طور پہ وہ شخص غلط بات کررھا ھون تو سامعین خاموشی سے اس کی بات سنین گے اور اسے کبھی بھی برا یا بھلا نہین کہین گے بلکہ اپنے اپنے راستہ پہ ھو لین گے اب گھر جاکر وہ لوگ سکون سے اس کی باتون پہ غور کرین گے اگر بات درست ھوئی تو اسی مقام پہ آکر بلاجھجھک اس کے نظریات اور عقائد سے متفق ھونے کا اعلان کرین گے اگر غلط بات ھے تب بھی وہ اسے غلط نہین کہین گے بلکہ سوالات کرین اور اپنے دلائل اور اس کے دلائل سے فیصلہ کرین گے ھماری قوم کا المیہ ھے بغیر سوچے سمجھے اگلے کا سر کلہاڑی سے دو ٹکڑے کردیتے ھین
بات کررھا تھا اس پھنسی مین درد نہین ھوتایاد رکھین یہ بالکل اسی طرح کی پھنسی ھے جیسے خارش یا چنبل مین ھوتی ھے اس مین قدرے سفیدی ھوتی ھے ھان درد کے بجائے ان مین لذت ھوتی ھے اور یاد رھے بندہ پھنسی کی وجہ نہین مرتا بلکہ اخراج خون کی وجہ سے مرتا ھے بشرطیکہ کوئی انتظام خون روکنے کا نہ ھو
حکم نمبر ١٣۔۔۔اگر کسی مریض کی بائین طرف ران مین شدید سرخی پیدا ھو جاۓ اور اس مین درد نہ ھو اور اس کی لمبائی تین انگل ھو تو سمجھ لین مریض ابتداۓ مرض سے پچیس روز کے اندر ھلاک ھو جاۓ گا اس کی خاص علامت یہ ھے کہ ابتدا مرض مین مریض کو شدید خارش ھوگی ساگ پات اور ترکاریان کھانے کی خواھش کرے گا
اب جدید تشریح ۔۔کسی جگہ کا شدید سرخ ھوجانا عضلاتی غدی تحریک مین ھوا کرتا ھے اس تحریک کی شدت سے کسی بھی مقام سے شریان پھٹ سکتی ھے انہی شریانون کا نکلا ھوا خون اس مقام کو سرخ کردیتا ھے اب اس مقام پہ ورم تو ھوتا نہین اس لئے درد بھی نہین ھوا کرتا اس تحریک مین خشکی کی شدت ھوتی ھے اس لئے مریض کوشدید خارش ھوا کرتی ھے اب ساگ اور اس جیسی کچی ترکاریان سوداوی اثرات کی حامل ھوتی ھین اس لئے مریض ان کو کھانے کی طبعی خواھش کرتا ھے
باقی مضمون انشاءاللہ اگلی قسط مین آپکا خادم محمود بھٹہ
No comments:
Post a Comment