Thursday, July 30, 2020

گلہڑ یعنی تھایارائیڈ گلینڈ کانقص|thyroid gland

۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ گلہڑ یعنی تھایارائیڈ گلینڈ کانقص۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گردن کی اگلی طرف سانس کی نالی کے بالائی حصے کے سامنے ایک گلٹی ھوتی ھے جس کا وزن پچاس گرام کے لگ بھگ ھے اس کا نام تھایارائیڈ گلنڈ ھے اسے اردو مین غدہ درقیہ کہتے ھین یہ اینڈوکرائن سسٹم یعنی بے نالی کے غدد والے خاندان سے اس کا تعلق ھے  یا آسان ترین تشریح مین آپ اسے غددجاذبہ کے افعال والے غدد مین شمار کرین گے 
تھایارائیڈ گلینڈ ایک ھارمون تیار کرتاھے جسے آپ Thyroxine کہتے ھین تھائیراکسن کی تیاری کےلئے آیوڈین کی ضرورت ھوتی ھے تھائیراکسن جسم کے خلیات مین میٹابولزم یعنی استحالہ کےلئے بہت اھم ھے آکسیجن کی کیفیت کی شرح کو خلوی تنفس کے دوران حرارت کی پیداوار پراثرانداز ھوتاھے
یہان ایک تھوڑی سی اور بھی مختصر تشریح کردون تھایارائیڈ گلینڈ کا ایک اور بھی حصہ ھے جسے آپ پیراتھائی رائڈ یعنی اندرون غدہ درقیہ کہتے ھین یہ غدہ درقیہ یعنی تھایارائیڈ گلینڈ کے اندر پیراتھائی رائڈ ھوتاھے 
پیراتھائی رائیڈ غدد خون مین اور ھڈیون مین کیلشیم اور فاسفورس کی سطح کو کنٹرول کرتاھے خیر ھماری آج کی گفتگو صرف تھایارائیڈ گلینڈ پہ ھے جبکہ گلینڈ تو بہت سے ھین اور خاص کر بے نالی گلینڈ یعنی اینڈوکرائن گلینڈ بھی کافی ھین جیسے پیچوٹری گلینڈ۔۔ لبلبہ ۔۔۔ ایڈرینل گلینڈ  ۔۔۔اووری تھائیمس گلینڈ یعنی غدہ الجنین جسے کہتے ھین بس آج صرف تھایارائیڈ پہ بات ھوگی
اس گلینڈ کی آسان ترین تشریح یون کی جاسکتی ھے کہ غدہ درقیہ سے ایک خاص قسم کا مواد خارج ھوتاھے جو خون کی طبعی ترکیب کے قیام مین مددگار ھوتاھے اگر اس مین جسمی طور پر یا فعلی طور پر غیر طبعی نقص واقع ھوجائے تو جسم کے تمام قویٰ متاثر ھوتے ھین قوت نمو کم ھوجاتی ھے قوت غاذیہ متغیرہ متاثر ھوجاتی ھے بدن مین دیگر رطوبات کے ساتھ مل کر جو موزون قوام بدن مین بنتا ھے وہ نہین بن پاتا جب اس غدے کا فعل خراب ھوجائے تویہ بڑھ جاتاھے ت اس سے نکلنے والا ھارمون جس کو تھائیراکسن کہتے ھین وہ بھی ناقص ھوجاتا ھے اب بات کو مذید آسان لفظون مین نظریہ کے مطابق سمجھ لین نظریہ مفرداعضاء کے مطابق عضلاتی تحریک اور غدی تسکین کا مرض ھے جسم مین سردی خشکی کے بڑھ جانے اور حرارت اصلیہ کے کم ھوجانے سےیہ مرض لاحق ھوتاھےیہ مرض ان علاقون مین زیادہ ھوتاھےجہان پرپینے کےپانی مین چونے کی مقدارزیادہ ھوتی ھےمریض کے خون مین چونا اور کیلشیم جمع ھوناشروع ھوجاتاھےاوراسکااخراج اورتعدیل نہین ھوپاتی جسکی وجہ سے گلےکےغددپھول جاتےھین اور اسے آپ گلہڑ کامرض کہتے ھین 
اس غددہ کےدوحصے ھوتےھین اگریہ اندرکی طرف بڑھےتونرخرےکےعضلات پردباؤپڑتاھےتوسانس متاثر ھوتی ھےاگربیرونی طرف بڑھےتوبدزیب توھوتاھی ھے لیکن دل کوآکسیجن ملا خونOxiginated bloodبھی کم ملتاھے جب اس کا فعل خراب ھوتاھےجب اس کا فعل خراب ھوتاھے توبدن مین آئیوڈین کی کمی ھوتی ھےجسے دیگرطریقون سےپوراکیاجاتاھے
اب ذرا علاج کی طرف آجاتے ھین کافی تشریح کردی ھے اگریہ غدہ بہت زیادہ بڑھ چکاھوتواپریشن ھی کروالینا بہترھوتاھے لیکن اگرابتدائی سٹیج پہ ھو علاج مندرجہ ذیل کرین 
غدی اعصابی شدید دوگولی تین وقت
تریاق غدد دوگولی تین وقت
حب سرس دوگولی تین وقت
معجون دبیدالورد چمچ چمچ دووقت
باقی ملین مسہل تریاق مریض کی برداشت کے مطابق دین 
غدی اعصابی شدید نسخہ۔۔
سنڈھ 50گرام
نوشادرٹھیکری 20گرام
مرچ سیاہ دس گرام 
سفوف بناکرنخودی گولیان بنالین
حب سرس نسخہ
تخم سرس سوگرام
رائی پچاس گرام
گندھک آملہ سار پچاس گرام
پیس کرنخودی گولیان بنالین
تریاق غدد نسخہ
گندھک آملہ سار
گل عشر
سہاگہ بریان
برابروزن پیس کرنخودی گولیان بنالین
باقی دواؤن کے نسخہ جات بارھا مرتبہ لکھ چکاھون
محمودبھٹہ گروپ مطب کامل باقی باتین ملاقاتین انشااللہ عید کے بعد اور سب کو میری طرف سے عیدالبقر مبارک ھو

Wednesday, July 29, 2020

توند بڑھ جانا|toond|paunch|fat belly

۔۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔
Tond|fat belly|paunch
۔۔۔۔ توند بڑھ جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر لوگ توند بڑھ جانے کی شکایت کرتے ھین کچھ عرصہ پہلے بھی اس بارے مین مضمون لکھ چکا ھون دوستو دوا بنا کر کھالینا محض مرض کا علاج نہین ھوتا جب تک مرض پیدا ھونے کا سبب نہ دور کیا جاۓ اب دیکھ لین اسی مرض بارے ذرا بحث کرلیتے ھین توند بڑھنے کے عموما تین چار ھی اصل سبب ھین
پہلا سبب کہ پیٹ ریاح سے بڑھتا ھے اگر آپ محض توند بڑھنے کی دوا پوچھتے رھین اور ساتھ ریاح کا علاج نہین ھوگا توکبھی بھی توند ٹھیک نہین ھوگی اسکے لئے جوارش بسابسہ پچھلی پوسٹ مین تجویز کی تھی تاکہ حرارت زیادہ پیدا ھو اور فالتو چربی بھی تحلیل ھواور ساتھ ھی گیس بننا بھی درست ھو اسکے ساتھ دیگر دوائین جیسے تریاق تبخیر اور شدید چار حب صابر ھین وہ کھلائین تو توند ٹھیک ھوجایا کرتی ھے 
دوسری اھم وجہ پرخوری ھے یعنی بہت زیادہ کھانا کھانے کا عادی ھونا اب خود ھی فیصلہ کرلین کہ آپ کھانا تو چار بندون کا اکیلے ھی کھارھے ھین پھر شکایت ھو کہ جناب توند بڑھ رھی ھے کوئی دوا بتائین تو میرے بھائی پہلے کھانا کم کھائین پھر بڑھی ھوئی فالتو چربی کا علاج کرین 
تیسرا اھم پہلو کھانا بے شک بندہ بہت کم کھاۓ جیسے ایک چپاتی صبح اور ایک شام کھاتا ھو باقی سارادن نہ کھاۓ لیکن وہ ایک ھی جگہ مسلسل بیٹھا رھے تو ایسے شخص کے پیٹ کے عضلات ڈھیلے ھوکر پیٹ کی توند نکل آیا کرتی ھے اسکے بہت ضروری ھے کہ بندہ ورزش کرے اور پیدل چلا کرے اور خاص کر پیٹ کی ورزش Streching excriessکرے پھر ساتھ دوا کھائین انشااللہ بڑھی توند ٹھیک ھوجائے گی
آخری وجہ بہت زیادہ اعصابی مزاج کی اشیاء کھانا جیسے آجکل شدید گرمی ھے تو لوگ ٹھنڈی اشیاء کھاتے ھین بلکہ بے تحاشا ٹھنڈا پانی پیا جاتاھے جبکہ شدید پیاس کی حالت مین بجاۓ ٹھنڈے مشروبات کے اگر تازہ پانی کر قہوہ پی لین توپیاس درست ھوجایا کرتی ھے آپ نے کبھی غور کیا ھوگا کہ چینی لوگون کے پیٹ نہین بڑھے ھوتے بہت کم چینی ایسے نظر آئین گے جن کے پیٹ بڑھے ھوۓ ھونگے اسکی وجہ محض یہ ھے کہ وہ گرم پانی پینے کے عادی ھوتے ھین ھمارے یہان فریج خریدی ھی اس لئے جاتی ھے کہ اس مین پانی ٹھنڈا کرکے پینا ھے جبکہ فریج حقیقت مین آپ کے استعمال والی وہ اشیاء جن کازیادہ ٹمپریچر مین خراب ھوجانے کا خدشہ ھوتاھے انہین محفوظ رکھنے کےلئے فریج کااستعمال ھوناچاھیے ھم پانی ٹھنڈا کرکرکے پیتے ھین اور پیٹ پھلا لیتے ھین 
باقی کچھ خواتین جنہین بچے پیدا ھونے کے دوران یا لاپرواھی برتنے سے پیٹ بڑھ جاتاھے یہان مجھے ایک خاتون یاد آگئی ھین جن کے ھان درجن سے زائد بچے پیدا ھوۓ اور اللہ تعالی نے ایسی صحت سے نواز رکھا تھا کہ پتہ ھی نہین چلتا تھا کہ اتنے بچے ھین پیٹ بالکل ساتھ لگا ھوا تھا اور حیرت کی بات یہ تھی کہ انتہائی غریب بھی تھی مین نے اس صحت کا راز پوچھا جواھم بات مجھے پتہ چلی وہ یہ تھی کہ جب بھی بچہ پیدا ھوتا وہ ایک پاؤ اجوائن دیسی آدھا کلو گڑ مین تھوڑا پانی ڈالکرآگ پہ رکھ کرچاشنی بناکراجوائن شامل کرلیتین اور دوچمچ یہ اجوائن صبح اور پھر شام کھایا کرتی اسکے علاوہ نارمل خوراک کھاتین یہ بات سن کے چودہ طبق روشن ھوگئے کیونکہ طب قدیم اور جدید مین اجوائن دیسی سے بڑھ کر رحم کے اکثریت امراض مین اس سے اچھی دوا اور کوئی نہین ھے ھمارے بزرگ رحم کی صفائی ستھرائی مین سب سے بڑی دوا تیزپات اجوائن اور رائی یعنی شدید چار کو کہا کرتے تھے برسون سے رکا حیض جاری ھوجایاکرتاھے خیر ھمارا موضوع بڑھی توند ھے انشااللہ کبھی اجوائن کی خوبیون پہ علیحدہ مضمون جو محض ذاتی تجربات ھون کتابی باتین نہ ھون لکھین گے 
خیر سے بڑھی توند مین مذکورہ بالا اسباب کو لازمی دور کرین ورزش کرین کھانا کم کھائین اور مندرجہ ذیل علاج کرین اللہ تعالی شفایاب کرین گے
غدی عضلاتی ملین دودوگولی
غدی عضلاتی شدید یعنی شدید چار دودوگولی 
غدی اعصابی مقوی ایک ایک گولی
دن مین تین بار ھمراہ پانی دین 
ساتھ جوارش جالینوس چمچ چمچ دوقت کھائین 
غدی اعصابی مقوی ۔۔۔ ھیرا کسیس دس گرام مرچ سیاہ تیس گرام ریوندخطائی چالیس گرام پیس کر نخودی گولیان بنالین
اس کے استعمال سے آپکے پیٹ کے ڈھیلے عضلات بھی درست ھونگے اوراگرجسم پہ کہین سن پن آجائے وہ بھی درست ھوتاھے اور قبض بھی ٹھیک ھوگی
دعاؤن مین یاد رکھیے اجازت محمودبھٹہ گروپ مطب کامل

Sunday, July 26, 2020

شربت دینار|Sherbat Dinar

۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sherbat Dinar
۔۔۔۔۔ شربت دینار حقیقت کیا ھے اور جدید وقت کی ضرورت ۔۔۔۔
شربت دینار کو صاحب نسخہ نے گڑ شکر یا چینی ملاکرتیار نہین کیا تھا بلکہ شہد مین تیار کیاجاتا تھا اس دور کے اوزان کو جدید شکل مین ھم کچھ یون سمجھ سکتے ھین 
تخم کاسنی 50گرام
گل سرخ 50گرام
جڑ کاسنی 100گرام
گل نیلوفر 25گرام
گاؤزبان25گرام
تخم کثوث 100گرام
شہد ایک کلو
ریوندچینی 40گرام
پہلی دواؤن کوبارہ گھنٹہ پہلے پانی مین بھگو دین اور تخم کثوث کو کسی کپڑے کی پوٹلی مین بند کرکےترشدہ دواؤن مین رکھ دین صبح تین چارابال آگ پہ دین پھر کسی کپڑے کی مدد سے چھان لین اب شہد ملا کرحالت قوام پہ لےآئین آگ دھیمی ھی رکھین تاکہ دوا کا جوھر نہ جلے جب شربت تیارھوجاۓتوآخری دوا ریوندچینی باریک پیس کر کپڑے مین چھان لین اب اس پوڈر شدہ ریوندچینی کوشربت مین شامل کردین بس اب شربت دینارتیارھے
یہ مزاج مین غدی اعصابی ھے پچاس گرام تک دن مین دومرتبہ پانی مین ملاکرپلاسکتےھین
فوائد آج بھی وھی ھین بے مثل اورانتہائی اعلی مقام طب مین حاصل ھے 
جگر مین رکےفاضل موادکوبذریعہ پاخانہ پیشاب اور پسینہ خارج کرتاھے پتہ جگرگردون کے مسدور راستےکھولتاھے استسقاء یرقان ھیپاٹائٹس اور اندرونی وبیرونی ورمون کو ٹھیک کرنےمین آج بھی اعلی دوا مین شمارھوتاھےسوزش بول رکاوٹ پیشاب ریاح الامعاء یعنی انتڑیون کی گیس قبض بواسیر عظم طحال عظم جگر ورم رحم کثرت طمث اور بڑھے ھوۓ بلڈپریشر کوبہت ھی مفیدھے گرمی خشکی سے ھاتھ پاؤن کاسن ھوجانایاجسم کا کوئی حصہ سن ھوجانا اور فاضل صفراوی مواد کوبدن سے خارج کرناغدی عضلاتی علامات کو فوری ٹھیک کرنا اس کی ادنی صفت ھے 
آئیے اب جدید تقاضون کے مطابق نئے دور کی نئی تحقیق آسان تیاری کے مراحل اور مندرجہ بالا تمام فوائد کا حامل مندرجہ ذیل شربت بھی بنا کراستعمال کرسکتے ھین
اسے آپ غدی اعصابی شربت براۓ جگروملین بھی کہہ سکتے ھین 
بادیان ۔تخم کاسنی ۔ افتیمون ھرایک دوا پچاس گرام
سنامکی ۔۔ تخم کثوث ھرایک دوا سوگرام 
چینی دوکلو
معروف مندرجہ بالا طریقہ کے مطابق شربت بنالین 
اس شربت کی تیاری مین جب سنامکی ڈالین تو صرف پتے ڈالین تنکے ڈنڈیان مکمل صاف کرین ورنہ استعمال کے بعد پیٹ مین مروڑ پیدا ھوسکتاھے اگر صرف پتے استعمال کرین گے تو مروڑ نہین پیداھونگے ھان آپ ضرورت کے تحت سنامکی کی مقدار آدھی تک کرسکتے ھین اگر سوگرام ھی ڈالین گے تو شربت بہترین ملین بھی ھوگا کثوث کو اس شربت مین بھی کپڑے مین باندھ کر ھی رکھین گروپ مطب کامل محمودبھٹہ 
نوٹ۔۔ اگر ساتھ معجون دبیدالورد عرق مکوکاسنی سے دین توجگر کے امراض اسکی صفات بہت ھی اعلی ھین

Tuesday, July 21, 2020

نبض ||pulse||diagnostic

*نبض کیسے چیک کریں* 

#طب_قدیم اور #طب_جدید کی روشنی میں

علم #نبض طب قدیم میں ابتداء ہی سے تشخیص کاروح رواں رہا ہے اور اب بھی علم نبض تشخیص کے جدید وقدیم طبی آلات ووسائل وذرائع پر فوقیت رکھتاہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبض صرف حرکت قلب کا اظہار کرتی ہے مگر ایسا کہنا درست نہیں ،فن نبض پردسترس رکھنے والے نبض دیکھ کر مرض پہچان لیتے ہیں مریض کی علامات وحالات کوتفصیل سے بیان کردیتے ہیں ۔

سائنس کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ قو ت سے حرکت اور حرکت سے حرارت پیداہوتی ہے یہی نظام زندگی میں راوں دواں ہے نبض کے ذریعے بھی ہم مریض کے جسم میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت اس کے جسم میں قوت کی زیادتی ہے یا حرکت کی زیادتی ہے یا حرارت کی زیادتی ہے یا ان میں کس کس کی کمی ہے اسی کے تحت نبض کی باقی جنسیں بھی پرکھی جاسکتی ہیں ۔ جن کا اس مقالہ میں تفصیلاً ذکر ہو گا نبض کی حقیت کو جانچنے کے لیے اسقدر جان لینا ضرروی ہے کہ نبض روح کے ظروف وقلب وشرائین کی حرکت کانام ہے کہ نسیم کو جذب کرکے روح کو ٹھنڈک پہنچائی جائے اورفضلا ت د خانیہ کوخارج کیاجائے اس کا ہر نبضہ (ٹھو کر یاقرع) دو حرکتوں اور دو سیکونوں سے مرکب ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک بنضہ انسباط اور انقباص سے مرکب ہوتا ہے یہ دونوں حرکتیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور ہر دو حرکتوں کے درمیان سکون کا ہونا ضروری ہے۔

 *نبض دیکھنے کا طریقہ* 
طبیب اپنی چاروں انگلیاں مریض کی کلائی کے اس طرف رکھے، جس طرف کلائی کا انگوٹھا ہے، اور شہادت کی انگلی پہنچے کی ہڈی کے ساتھ نیچے کی طرف اور پھر شریان کا مشاہد ہ کریں ۔

 *اجناس نبض* 
نبض کی دس اجناس ہیں
1۔ مقدار
2۔ قرع نبض
3۔ زمانہ حرکت
4۔ قوام آلہ
5۔ زمانہ سکون
6۔ مقدارِ رطوبت
7۔ شریان کی
8۔ وزنِ حرکت
9۔ استوا واختلا ف نبض
10۔ نظم نبض

 *مقدار* 

1۔ طویل
یہ وہ نبض ہے جس کی لمبائی معتدل و تندرست شخص کی نبض سے نسبتاً لمبائی میں زیادہ ہویعنی اگریہ چارانگلیوں تک یا ان سے میں بھی طویل ہوتو اسے ہم طویل نبض کہیں گے اوریادرکھیں طویل نبض حرارت کی زیادتی کوظاہر کرتی ہے اگر اس کی لمبائی دو انگلیوں تک ہی رہے تو یہ معتدل ہوگی ۔ اوریہ دوانگلیوں سے کم ہوتو یہ قیصر ہوگی اورقیصر نبض حرارت کی کمی کوظاہر کرتی ہے ۔طویل غدی نبض ہے اور قصیر اعصابی ۔

2. عریض
چوڑی نبض جوکہ انگلی کے نصف پور سے زیادہ ہورطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جوکہ نصف پور ہو معتدل ہوگی اورجس کی چوڑائی نصف پور سے کم ہوگی رطوبت کی کمی کا اظہار کرے گی ۔تنگ نبض کو ضیق کہا جاتا ہے ۔عریض نبض اعصابی ہو گی اور ضیق نبض غدی ہو گی ۔

3. شرف (بلند)
جونبض بلندی میں زیادہ محسوس ہوایسی نبض حرکت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے جودرمیان میںہوگی معتدل اورجو نبض نیچی ہوگی اسے منحفض کہتے ہیں ۔ یہ حرکت کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔
چاروں انگلیوں کو نبض پر آہستہ سے رکھیں یعنی دباو نہ ڈالیں ۔ اگر نبض انگلیوں کوبلا دباو چھونے لگے توایسی نبض مشرف ہوگی اوراگر نبض محسوس نہ ہوتو پھر انگلیوں کو دباتے جائیں اورجائزہ لیتے جائیں اگرنبض درمیان میں محسوس ہوتو یہ معتدل ہوگی اوراگرانگلیاں کلائی پردبانے سے نبض کا احساس کلائی کی ہڈی کے پاس اخیر میں جاکر ہوتو یہ نبض منخفض ہے جوکہ حرکت کی کمی کا اظہارکرتی ہے مشرف نبض عضلاتی اورمنخفض اعصابی ہوگی۔

 *قرغ نبض -- ٹھوکر نبض* 

اس میں #نبض کی ٹھوکر کوجانچا جاتا ہے چاروں انگلیاں نبض پر رکھ کر غور کریں آہستہ آہستہ انگلیوں کودبائیں اگرنبض انگلیوں کوسختی سے اوپرکی طرف دھکیل رہی ہے توایسی نبض قوی کہلاتی ہے یعنی ذرا زور سے ٹھوکر لگانے والی نبض ہی قوی ہے یہ نبض قوت حیوانی کے قوی ہونے کوظاہر کرتی ہے اوراگر یہ دبائو درمیانہ سا ہو تومعتدل ہوگی ۔اورجونبض دبانے سے آسانی کے ساتھ دب جائے تویہ نبض ضعیف کہلاتی ہے یعنی قوت حیوانی میں صغف کا اظہار ہے قوی عضلاتی ہوگی اورضعیف اگرعریض بھی ہوتو اعصابی ہوگی اورضیق ہوتو غدی ہوگی۔

 *زمانہ حرکت* 

اس کی بھی تین ہی اقسام ہیں سریع ۔ متعدل ۔ بطی ۔
سریع نبض وہ ہوتی ہے جس کی حرکت تھوڑی مدت میں ختم ہوجاتی ہے یہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ قلب کو سوئے سردنسیم یعنی اوکسیجن بہت حاجت ہے جسم میں دخان (کاربانک ایسڈ گیس) کی زیادتی ہے۔
اگر بطی ہے صاف ظاہر ہے کہ قلب کو ہوائے سرد کی حاجت نہیں۔ سریع یعنی تیزتر نبض عضلاتی ہوتی ہے اور بطی (سست) نبض اگر عریض ہوگی تو اعصابی ہوگی اورضیق ہوگی توغدی ہوگی بطی سے مراد نبض کی سستی ہے۔

 *قوام آلہ - شریان کی سختی ونرمی* 

اسے بھی تین اقسام میں بیان کیا گیا ہے صلب، معتدل اور لین،
صلب وہ نبض ہے جسکو انگلیوں سے دبانے میں سختی کا اظہار ہو۔ یہ بدن کی خشکی کو دلالت کرتی ہے ایسی نبض ہمیشہ عضلاتی ہوتی ہے۔
لین نبض صلب کے مخالف ہوتی ہے یعنی نرم ہوتی ہے ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے یعنی ایسی نبض اعصابی ہوگی ۔
اورمعتدل اعتدل رطوبت کا اظہار ہے۔
*زمانہ سکون* 
اس کو بھی تین اقسام میں بیان کیاجاتا ہے متواتر ، تفاوت، معتدل ۔
متواترنبض وہ ہے جس میں وہ زمانہ تھوڑا ہوجو دو ٹھوکروں کے درمیان محسوس ہوتاہے ۔ یہ نبض قوت حیوانی کے ضعف کی دلیل ہے قوت حیوانی میں ضعف یاتوحرارت کی زیادتی کی وجہ سے ہوگا یاپھر رطوبت کی زیادتی سے ہوگا۔ عموماً ایسی نبض اگر ضیق ہو تَو غدی ہوگی یاپھر اگرعریض ہو تَو اعصابی بھی ہو سکتی ہے ۔
نبض دیکھتے وقت اس بات کو خاص طور پر مدنظر رکھیں کہ کتنی دیر کے بعد ٹھوکر آکر انگلیوں کو لگتی ہے اور پھر دوسری ٹھوکر کے بعد درمیانی وقفہ کو مدنظر رکھیں۔ پس یہی زمانہ سکون ایسا زمانہ ہے کہ جس میں شریان کی حرکت بہت کم محسوس ہو بلکہ بعض اوقات اسکی حرکت محسوس ہی نہیں ہوتی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبض انگلیوں کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے۔

 *مقدارِ رطوبت* 

نبض پرانگلیاں رکھ کر جانچنے کی کوشش کریں اس کی صورت یہ ہوگی جیسا کہ پانی سے بھری ہوئی ٹیوب کے اند رپانی کی مقدار کا اندازہ لگایا جائے کہ ٹیوب کے اندر پانی اس کے جوف کے اندازے سے زیادہ ہے یا کم بالکل اسی طرح نبض ضرورت سے زیادہ پھولی ہوگی اور دبانے سے اس کا اندازہ پوری طرح ہو سکے گا۔ اگر ممتلی ہو تو اس میں ضرورت سے زیادہ خون اور روح ہوگی جوکہ صحت کے لئے مضر ہے اسی طرح اگر نبض خالی ہوگی تو خون اور روح کی کمی کی علامت ہے کمزوری کی دلیل ہے اس لئے ممتلی یعنی خون و روح سے بھری ہوئی نبض عضلاتی ہوگی خالی ممتلی کے متضاد ہوگی جوکہ اعصابی ہوگی۔

 *شریان کی کیفیت* 

نبض کی اس قسم سے جسم کی حرارت وبرودت (گرمی وسردی ) کو پرکھا جاتا ہے اس کو جانچنا بہت آسان ہے اگر نبض چھونے سے حرارت زیادہ محسوس ہو تو یہ نبض حار ہوگی، گرمی پر دلالت کریگی اور گرم نبض عموماً طویل اور ضیق بھی ہوتی ہے ۔ اگر نبض پر ہاتھ رکھنے سے مریض کا جسم سرد محسوس ہو تو یہ نبض بارد ہوگی جوکہ اعصابی عضلاتی کی دلیل ہے۔

 *وزن حرکت* 
یہ نبض حرکت کے وزن کے اعتبار سے ہے جس سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ نبض کا زمانہ حرکت اور زمانہ سکون مساوی ہے۔
اگر یہ زمانہ سکون مساوی ہے تو نبض انقباص وانسباط (پھیلنا اور سکٹرنا) کے لحاظ سے حالت معتدل میں ہوگی اسے جیدالوزن کہا جاتا ہے
ایسی نبض جسکا انقباض وانسباط مساوی نہ ہو بلکہ دونوں میں کمی بیشی پائی جائے یہ نبض صحت کی خرابی کی دلیل ہے۔ اگر دل میں یہ سکیڑ دل کی شریانوں کی بندش کی وجہ سے ہو تو ایسی نبض عضلاتی ہوگی۔ اگریہ ضعف قلب کی وجہ سے ہے تو ایسی نبض غدی ہوگی اور اگر یہ تسکین قلب کی وجہ سے ہے تو ایسی نبض اعصابی ہوگی۔ ان باتوں کو مدنظر رکھنا طبیب کی مہارت ہے۔ ایسی نبض کو خارج الوزن کا نام دیا گیا ہے۔
اگر نبض عمر کے مطابق اپنی حرکت وسکون کے وقت کو صحیح ظاہر نہ کرے یعنی بچے، جوان، بوڑھے کی نبض کے اوزان ان کی اپنی عمر کے مطابق نہ ہوں تو یہ ردی الوزن کہلائے گی۔ اس میں نبض کی انقباضی اور انبساطی صورت کو جانچا جاتا ہے۔ نبض جب پھیلے تو اس کو حرکت انسباطی کہتے ہیں اور جب اپنے اندر سکڑے تو اسے حرکت انقباص کہتے ہیں۔ ان دونوں کے زمانوں کا فرق ہی اسکا وزن کہلاتا ہے۔
ایسی نبض پرکھتے وقت عمر کو خاص طور پر مدنظر رکھیں ایسی نبض کو حتمی نبض قرار دینے کے لئے نبض کی دیگر اقسام کے مدنظر حکم لگائیں۔

 *استوا واختلاف نبض* 
اسکی صرف دو ہی اقسام ہیں مستوی اور مختلف ۔
مستوی نبض وہ ہے جس کی تمام اجزاء تمام باتوں میں باقی نبض کے مشابہ ہوں یہ نبض بدن کی اچھی حالت ہونے کی علامت ہے ۔
نبض مختلف وہ نبض ہے جو مستوی کے مخالف ہو اور اس کے برعکس پر دلالت کرے ۔
جانچنے کے لئے نبض پر ہاتھ رکھیں جس قدر نبض کی اجناس اوپر بیان کی گئی ہیں کیا یہ ان کے اعتبار سے معتدل ہے اگر ان میں ربط قائم ہے اور معتدل حیثیت رکھتی ہیں تو وہ مستوی ہے ورنہ مختلف۔

 *مرکب نبض کی اقسام* 

 *تعریف* 
مرکب نبض اس نبض کو کہتے ہیں جس میں چند مفرد نبضیں مل کر ایک حالت پیدا کردیں۔ اس سلسلہ میں اطباء نے نبض کی چند مرکب صورتیں بیان کی ہیں، جن سے جسم انسان کی بعض حالتوں پر خاص طور پر روشنی پڑتی ہے اور خاص امراض میں نبض کی جو مرکب کیفیت پیدا ہوتی ہے، ان کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ ایک معالج آسانی کے ساتھ متقدمین اطباء اکرام کے تجربات ومشاہدات سے مستفید ہو سکتا ہے ۔
وہ چند مرکب نبضیں درج ذیل ہیں
1۔ نبض عظیم
وہ نبض جوطول وعرض وشرف میں زیادہ ہو۔ ایسی نبض قوت کی زیادتی کا اظہار کرتی ہے اسے ہم عضلاتی یا وموی کہیں گے جو نبض تینوں اعتبار سے صغیر ہوگی وہ قوت کی کمی کا اظہار ہے اور وہ اعصابی نبض ہوگی۔

2۔ نبض غلیظ
غلیظ وہ نبض ہے جو صرف چوڑائی اور بلندی میں زیادہ ہو۔ ایسی نبض عضلاتی اعصابی ہوگی۔

3۔ نبض غزالی
وہ نبض ہے جو انگلی کے پوروں کو ایک ٹھوکر لگانے کے بعد دوسری ٹھوکر ایسی جلدی لگائے کہ اس کا لوٹنا اور سکون کرنا محسوس نہ ہو یہ نبض اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ترویج نسیم کی جسم میں زیادہ ضرورت ہے۔
غزالی کے معنی بچہ ہرن ہیں۔ یہاں اس کی مشابہت چال کی تیزی کی وجہ سے دی گئی ہے ایسی نبض عضلاتی ہوگی۔

4۔ موجی نبض
ایسی نبض جس میں شریانوں کے اجزاء باوجود ہونے کے مختلف ہوتے ہیں کہیں سے عظیم کہیں سے صغیر کہیں سے بلند اور کہیں سے پست کہیں سے چوڑی اور کہیں سے تنگ گویا اس میں موجیں (لہریں) پیدا ہو رہی ہیں جو ایک دوسرے کے پیچھے آرہی ہیں ایسی نبض رطوبت کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے قانون مفرد اعضاء میں ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی۔

5۔ نبض دودی
(کیڑے کی رفتار کی مانند) یہ نبض بلندی میں نبض موجی کے مانند ہوتی ہے لیکن عریض اور ممتلی نہیں ہوتی یہ نبض موجی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس کی موجیں ضعیف ہوتی ہیں گویا اس کے خلاف صغیر ہوتی ہے ایسی نبض قوت کے ساقط ہونے پر دلالت کرتی ہے لیکن سقوط قوت پورے طور پر نہیں ہوتا اس نبض کو دودی اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حرکت میں اس کیڑے کے مشابہ ہوتی ہے جس کے بہت سے پائوں ہوتے ہیں ایسی نبض غدی اعصابی ہوگی بوجہ تحلیل نبض میں ضعف پیدا ہوتا ہے۔

6۔ نبض ممتلی
یہ وہ نبض ہے جو نہایت ہی صغیر اور متواتر ہوتی ہے ایسی نبض اکثر قوت کے کامل طور پر ساخط کے ہو جانے اور قربت الموت کے وقت ہوتی ہے یہ نبض دودی کے مشابہ ہوتی ہے لیکن اس سے زیادہ صغیر اور متواتر ہوتی ہے یہ اعصابی غدی کی انتہائی صورت ہوگی۔

7۔ نبض منشاری
(آرے کے دندانوں کی مانند)
یہ وہ نبض ہے جو بہت مشرف، صلب، متواتر اور سریع ہوتی ہے اسکی ٹھوکر اور بلندی میں اختلاف ہوتا ہے یعنی بعض اجزا سختی سے ٹھوکر لگاتے ہیں بعض نرمی سے اور بعض زیادہ بلند ہوتے ہیں اور بعض پست گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نبض کے بعض اجزاء نیچے اترتے وقت بعض انگلیوں کو ٹھوکر مار دیتے ہیں۔ یعنی ایک پورے کو جس بلندی سے ٹھوکر لگاتے ہیں اس سے کم دوسرے پورے کو یہ نبض اس امر کو ظاہر کرتی ہے کہ کسی عضو میں ورم پیدا ہو گیا ہے خاص طور پر پھیپھڑوں اور عضلات میں صاف ظاہر ہے کہ یہ عضلاتی اعصابی تحریک کی بگڑی ہوئی نبض ہے ۔
نبض ذنب الفار، نبض ذولفترہ، نبض واقع فی الوسط، نبض مسلی، مرتعش اور ملتوی وغیرہ بھی بیان کی جاتی ہیں، جن سے کسی مزاج کی واضح پہچان مشکل ہے، اس لئے ان کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ 

#طبِ_قدیم کے تحت نبض کا بیان صرف اس لئے لکھ دیا ہے کہ طبِ قدیم کے اطباء بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ ساتھ ساتھ #تجدیدِ_طب کے مطابق ان کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے کہ تجدیدِ طب کے طلبہ  بھی اس سے مستفید ہو سکیں ۔

نبض کے بارے تجدیدِ طب کی رہنمائی مکمل اور کا فی ہے۔ مجدد طب حکیم انقلاب نے علم النبض پر بھی انتہائی محنت کے ساتھ تجدید کی اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں نبض کو انتہائی آسان کرتے ہوئے اسے بھی اعضائے ریئسہ دل ودماغ وجگر کے ساتھ مخصوص کر دیا جوکہ فنِ طب میں ایک بہت بڑا کمال و انقلاب ہے۔ اس اعتبار سے #قانون_مفرد_اعضاء میں مفرد نبض کی اقسام صرف تین ہیں، جنہیں اعصابی نبض، عضلاتی نبض، اور غدی نبض سے موسوم کیا گیا ہے۔ پھر ہر ایک مرکب نبض کی اقسام کو انہیں اعضاء رئیسہ کے باہمی تعلق کے مدنظر چھ (6) اقسام میں تقسیم کر دیا ہے، جوکہ بالترتیب درج ذیل مقرر ہیں
1۔ اعصابی عضلاتی 
2۔ عضلاتی اعصابی
3۔ عضلاتی غدی 
4۔ غدی عضلاتی
5۔ غدی اعصابی 
6۔ اعصابی غدی

اب پہلے مفرد نبض کی شناخت و وضاحت کو بیان کیا جاتا ہے۔

 *اعصابی نبض* 

ایسی نبض جو قیصر ہو منخفض ہو، عریض ہو، لین ہو، بطی ہو اعصابی کہلاتی ہے۔ انگلیوں کو زور سے دبانے سے کلائی کے پاس محسوس ہوگی۔ یہ جسم میں بلغم اور رطوبت کی زیادتی کی علامت ہوگی۔

 *عضلاتی نبض* 

جب ہاتھ مریض کی کلائی پر آہستہ سے رکھا جائے، نبض اوپر ہی بلندی پر محسوس ہو، ساتھ ہی ساتھ صلب ہو اور سریع ہو اور قوی ہو تو ایسی نبض عضلاتی نبض کہلاتی ہے۔ ایسی نبض جسم میں خشکی، ریاح، سوداور بواسیری زہر کا اظہار کرتی ہے ۔

 *غدی نبض* 

مریض کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور آہستہ آہستہ انگلیوں کو دباتے جائیں۔ اگر نبض درمیاں میں واقع ہو تو یہ غدی نبض ہوگی۔ ایسی نبض طویل ہوگی، ضیق ہوگی۔ یہ جسم میں حرارت اور صفراء کی زیادتی کا اظہار ہے۔ حرارت سے جسم میں لاغری وکمزوری کی علامات ہوں گی۔ یاد رکھیں، جب طویل نبض مشرف بھی اور قوی بھی ہو تو عضلاتی ہوگی۔

 *خصوصی نوٹ* 
نبض بالکل اوپر بلندی پر عضلاتی، بالکل کلائی کے پاس پست اعصابی اور درمیان میں غدی ہوگی۔

 *مرکب نبض* 
قانون مفرد اعضاء میں مرکب نبض کو چھ تحاریک کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں

 *اعصابی عضلاتی* 
جو نبض پہلی انگلی کے نیچے حرکت کرے اور باقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے، اعصابی عضلاتی ہوگی۔ یہ نبض گہرائی میں ہوگی۔ بعض اوقات فقرالدم کی وجہ سے دل بے چین ہو تو تیزی سے حرکت کرتی محسوس ہوگی مگر دبانے سے فوراََ دب جائے گی جیسا کہ نبض میں حرکت ہے ہی نہیں۔ عام حالات میں اعصابی عضلاتی نبض سست ہوتی ہے ۔
اس کی تشخیصی علامات یہ ہیں ـ ـ
منہ کاذائقہ پھیکا، جسم پھولا ہوا ہونا شہوت کم، دل کا ڈوبنا، رطوبت کا کثرت سے اخراج، پیشاب زیادہ آنا اور اس کا رنگ سفید ہونا، ناخنوں کی سفیدی اہم علامات ہیں۔

 *عضلاتی اعصابی* 

اگر نبض پہلی اور دوسری انگلی کے نیچے حرکت کرے اور باقی انگلیوں کے نیچے حرکت نہ کرے تو یہ نبض عضلاتی اعصابی ہوگی۔ مقامی طور پر مشرف ہوگی قدرے موٹائی میں ہوگی۔ ریاح سے پر ہونے کی وجہ سے ذرا تیز بھی ہوگی۔ رطوبت کااثر اگر باقی ہو تو سست وعریض بھی ہو سکتی ہے۔
 
*تشخیصی علامات* 
چہرہ سیاہی مائل اور اس پر داغ دھبے، چہرہ پچکا ہوا، اگر کولسٹرول بڑھ گیا تو جسم پھولا ہوا کاربن کی زیادتی، ترش ڈکار، جسم میں ریاح اور خشکی و سردی پائی جائے گی۔

 *عضلاتی غدی* 
اگر نبض پہلی دوسری اور تیسری انگلی تک حرکت کرے اور چوتھی انگلی کے نیچے حرکت نہ کرے تو یہ نبص عضلاتی غدی ہوگی۔مشرف ہوگی یعنی مقامی طوپر بالکل اوپر ہوگی۔ حرکت میں تیز اور تنی ہوئی ہوگی۔ یاد رکھیں نبض، اگرچہ چار انگلیوں تک بھی حرکت کرے، اگروہ ساتھ ساتھ صلب بھی ہو اور مشرف وسریع بھی ہو تو عضلاتی غدی شدید ہوں۔

 *تشخیصی علامات* 
عضلات وقلب میں سکیٹر، فشار الدم، ریاح کا غلبہ، اختلاج قلب، جسم کی رنگت سرخی مائل جسم وجلد پر خشکی اور نیند کی کمی ہوگی۔

 *غدی عضلاتی* 
اگر نبض چار انگلیوں تک حرکت کرے لیکن وہ مقامی طور پر مشرف اور منحفض کے درمیان واقع ہو ضیق بھی ہو تو ایسی نبض غدی عضلاتی ہوتی ہے۔

 *تشخیصی علامات* 
جسم زرد، پیلا، ڈھیلا۔ ہاتھ پائوں چہرے پر ورم۔ یرقان، پیشاب میں جلن، جگر وغدد اور غشائے مخاطی میں پہلے سوزش وورم اور بالا خر سکیٹر شروع ہو جانا۔

 *غدی اعصابی* 

اگر مقامی طور پر غدی نبض کا رجوع منخفض کی طرف ہو جائے تو یہ غدی اعصابی ہوگی یہ نبض رطوبت کی وجہ سے غدی عضلاتی سے قدرے موٹی ہوگی اور سست ہوگی۔

تشخیصی علامات 
جگر کی مشینی تحریک ہے۔ آنتوں میں مڑور، پیچش، پیشاب میں جلن، عسرالطمت، نلوں میں درد، بلڈپریشر اور خفقان وغیرہ کی علامات ہوںگی۔

 *اعصابی غدی* 

اگر نبض منخفض ہو جائے، عریض ہو جائے، قصیر ہو جائے تو ایسی نبض اعصابی غدی ہوگی انتہائی دبانے سے ملے گی۔

تشخیصی علامات
جسم پھولا ہوا، چربی کی کثرت، بار بار پیشاب کا آنا۔
بعض اطباء نے ہر نبض کے ساتھ علامات کی بڑی طویل فہرست لکھ کر دی ہے جسکی کہ ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے قانون مفرد اعضاء میں تو ہر تحریک کی جداگانہ علامات کو سر سے لیکر پائوں تک وضاحت وتفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ مثلاََ جس طبیب کو اعصابی عضلاتی علامات معلوم ہیں تو وہ بخوبی جانتا ہے کہ اعصابی عضلاتی نبض کی کیا کیا علامات ہیں۔ اسی طرح دیگر تمام تحاریک کی نبض سے علامات کی تطبیق خود بخود پیدا ہو گئی ہے۔ ان کا یہاں پہ بیان کر نا ایک تو طوالت کا باعث ہوگا۔ اور دوسرا نفس مضمون سے دوری کا باعث ہوگا ۔

 *مرد اور عورت کی نبض میں فرق* 

عورت کی نبض کبھی عضلاتی نہیں ہوتی کیونکہ عضلاتی نبض سے خصیتہ الرحم میں اور دیگر غدو میں سکون ہوکر جسم اور بچے کو مکمل غذا نہیں ملتی۔ اگر عورت کی نبض عضلاتی ہو جائے تو اس کو یا حمل ہوگا یا اس میں مردانہ اوصاف پیدا ہو جائیں گے جیسے آج کل کی تہذیب میں لڑکیاں گیند بلا وغیرہ کھیلتی ہیں یا اس قسم کے دیگر کھیل کھیلتی ہیں یا جن میں شرم وحیاء کم ہو جاتا ہے ۔ اس طرح جن عورتوں کے رحم میں رسولی ہوتی ہے ان کی نبض بھی عضلاتی ہو جاتی ہے اور ورم کی نبض کا عضلاتی ہونا ضروری ہے۔ 
(ماہنامہ رجسٹریشن فرنٹ مارچ۱۹۷۰؁ء صفحہ نمبر ۹ تا ۱۰)

 *اہمیت نبض* 

جو لوگ نبض شناسی سے آگاہ ہیں اور پوری دسترس رکھتے ہیں ان کے لیے نبض دیکھ کر امراض کا بیان کر دینا بلکہ ان کی تفصیلات کا ظاہر کر دینا کوئی مشکل بات نہیں۔ ایک نبض شناس معالج نہ صرف اس فن پر پوری دسترس حاصل کر لیتا ہے بلکہ وہ بڑی عزت ووقار کا مالک بن جاتا ہے۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ نبض سے صرف قلب کی حرکات ہی کا پتہ چلتا ہے بلکہ اس میں خون کے دبائو خون کی رطوبت اور خون کی حرارت کا بھی علم ہوتا ہے۔ ہر حال میں دل کی حرکات بدل جاتی ہیں جس کے ساتھ نبض کی حرکات اس کے جسم اور اس کے مقام میں بھی تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں جس سے انسانی جسم کے حالات پر حکم لگایا جا سکتا ہے۔

 *راز کی بات* 

دل ایک عضلاتی عضو ہے مگر اس پر دو عدد پردے چڑھے ہوئے ہیں دل کے اوپر کا پردہ غشائے مخاطی اور غدی ہے اور اس کے اوپر بلغمی اور اعصابی پردہ ہوتا ہے۔جو شریانیں دل اور اس کے دونوں پردوں کو غذا پہنچاتی ہیں۔ ان میں تحریک یا سوزش سے تیزی آجاتی ہے جس کا اثر حرکات قلب اور فعال شرائین پر پڑتا ہے جس سے ان میں خون کے دبائو خون کی رطوبت اور خون کی حرارت میں کمی بیشی ظاہر ہو جاتی ہے۔
یہ راز اچھی طرح ذہین نشین کرلیں کہ

شریان میں خون کا دبائو قلب کی تحریک سے پیدا ہوتا ہے جو اس کی ذاتی اور عضلاتی تحریک ہے۔
خون کی رطوبت میں زیادتی دل کے بلغمی اعصابی پردے میں تحریک سے ہوتی ہے ۔
خون کی حرارت قلب کے غشائی غدی پردے میں تحریک سے پیدا ہوتی ہے اس طرح دل کے ساتھ اعصاب ودماغ اور جگر وغدد کے افعال کا علم ہو جاتا ہے۔
یہ وہ راز ہے جس کو دنیائے طب میں حکیم انقلاب نے پہلی بار ظاہر کیا۔ اس سے نبض کے علم میں بے انتہا آسانیا ںپیدا ہو گئی ہیں۔

 *تشخیص کے چند اہم نکات* 

(۱) حرکات جسم کی زیادتی سے تکلیف
جسم کے بعض امراض وعلامات میں ذرا بھی اِدھر اُدھر حرکت کی جائے تو ان میں تکلیف پیدا ہو جاتی ہے، یا شدت ہو جاتی ہے ایسی صورت میں عضلات وقلب میں سوزش ہوتی ہے۔ حرکت سے جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔

(۲) آرام کی صورت میں تکلیف
جب آرام کیا جائے تو تکلیف جسم بڑھ جاتی ہے اور طبیعت حرکت کرنے سے آرام پاتی ہے ایسی صورت میں اعصاب ودماغ میں سوزش وتیزی ہوتی ہے۔ آرام سے جسم میں رطوبت کی زیادتی ہو جاتی ہے۔
(تحقیات الامراض والعلامات صفحہ نمبر ۱۱۱ تا ۱۱۲)

(۳) خون آنا
اگر معدے سے لے کر اوپر کی طرف سر تک کسی مخرج سے خارج ہو تو یہ عضلاتی اعصابی تحریک ہوگی اور اگر جگر سے لے کر پائوں تک کسی مخرج یا مجریٰ سے خارج ہو تو یہ عضلاتی غدی تحریک ہوگی ۔

 *ضرور ی نوٹ* 

تشخیص الامراض میں عضلاتی اعصابی اور عضلاتی غدی یا غدی عضلاتی اور غدی اعصابی وغیرہ تحریکات میں فرق اگر وقتی طور پر معلوم نہ ہو سکے تو کسی قسم کا فکر کئے بغیر اصول علاج کے تحت عضو مسکن میں تحریک پیدا کر دینا کافی وشافی ویقینی علاج ہے۔

 *تشخیص کی مروجہ خامیاں* 

طب یونانی وطب اسلامی میں تشخیص کا پیمانہ نبض وقارورہ ہے۔ ملک بھر کے لاکھوں مطب کا چکر لگالیں گنتی کے چند مطب ملیں گے جن کو چلانے والے اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نہ ہی یہ علم اب طبیہ کالجوں میں پوری توجہ سے پڑھایا جاتا ہے۔ شاید ہی ملک کا کوئی طبی ادارہ نبض وقارورہ سے اعضاء کے غیر طبعی افعال اور اخلاط کی کمی بیشی کی پہچان پر دسترس کی تعلیم دیتا ہو۔ اب تک تو طب یونانی کا ایسا کوئی ادارہ دیکھا نہیں، دیکھنے کی خواہش ضرور ہے۔اعتراف ِحقیقت بھی حسن اخلاق کی اصل ہے قانون مفرد اعضاء کے اداروں سے تعلیم وتربیت یافتہ اطباء نبض وقارورہ سے تشخیص پر کافی حد تک دسترس رکھتے ہیں۔
اس طرح مذاکرہ، دال تعرف ماتقدم جوکہ مریض و معالج میں اعتماد کی روح رواں ہیں مگر اس دور کے معالجین ان حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتے۔ مریض نے جس علامت کا نام لیا اسی کو مرض قرار دے کر بنے بنائے مجربات کا بنڈل اس کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی ادارہ تشخیص کا دعویٰ بھی کرتا ہے اس کی تشخیص کا جو انداز ہے، اس پر بھی ذرا غور کریں۔ تمام طریقہ بائے علاج میں پیٹ میں نفخ ہو یا قے، بھوک کی شدت ہو یا بھوک بند، تبخیر ہو یا ہچکی بس یہی کہا جائے گا کہ پیٹ میں خرابی ہے ان علامات میں اعضائے غذا یہ کی بہت کم تشخیص کی جائے گی۔ اگر کسی اہل فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ، امعاء، جگر، طحال اور لبلبہ کی تشخیص کر بھی لی تو اس کو بہت بڑا کمال خیال کیا جائے گا۔ لیکن اس امر کی طرف کسی کا دھیان نہیں جائے گا کہ معدہ امعاء وغیرہ خود مرکب اعضاء ہیں اور ان میں بھی اپنی جگہ پر عضلات، اعصاب اور غدد واقع ہیں مگر یہاں پرب ھی صرف معدہ کو مریض کہا جاتا ہے جو ایک مرکب عضو ہے۔ یہاں پر بھی معدہ کے مفرد اعضاء کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا حالانکہ معدہ کے ہر مفرد عضو کی علامات بالکل مختلف اور جدا جدا ہیں مگر تشخیص ہے کہ کلی عضو کی کی جا رہی ہے اور علاج بھی کلی طور پر معدہ کا کیا جا رہا ہے نتیجہ اکثر صفر نکلتا ہے ناکام ہوکر نئی مرض ایجاد کر دی جاتی ہے ایک نئی مرض معلوم کرنے کا کارنامہ شمار کر لیا جاتا ہے۔
فاعلم، جب معدہ کے اعصاب میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی صورتیں اور علامات معدہ کے عضلات کی سوزشوں سے بالکل جدا ہوتی ہیں اسی طرح جب معدہ کے غدو میں سوزش ہوتی ہے تو اس کی علامات ان دونوں مفرد اعضاء کی سوزشوں سے بالکل الگ الگ ہوتی ہیں پھر سب کو صرف معدہ کی سوزش شمار کرنا تشخیص اور علاج میں کسی قدر الجھنیں پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ، امریکہ کو بھی علاج میں ناکامیاں ہوتی ہیں اور وہ پریشان اور بے چین ہیں اور اس وقت تک ہمیشہ ناکام رہیں گے جب تک کہ علاج اور امراض میں کسی مرکب عضو کی بجائے مفرد عضو کو سامنے نہیں رکھیں گے۔امراض میں مفرد اعضاء کو مدنظر رکھنا مجدد طب حکیم انقلاب المعالج دوست محمد صابر ملتانی کی جدید تحقیق اور عالمگیر کارنامہ ہے مجدد طب کا یہ نظریہ مفرد اعضاء (Simple organ theory) فطرت اور قانون قدرت سے مطابقت رکھتا ہے۔
اس سے نہ صرف تشخیص میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں بلکہ ہر مرض کا علاج یقینی صورت میں سامنے آگیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مرکب عضو میں جس قدر امراض پیدا ہوتے ہیں ان کی جدا جدا صورتیں سامنے آ جاتی ہیں۔  ہر صورت میں ایک دوسرے سے ان کی علامات جدا ہیں، جن سے فوراََ یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس عضو کا کون سا حصہ بیمار ہے پھر صرف اسی حصہ کا آسانی سے علاج ہو سکتا ہے۔
اب ٹی بی ہی کو لیجئے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے یہ تو اصل بیماری کی ایک علامت ہے۔ انسان میں آخر کونسا پرزہ خراب ہے جب معالج کو پتہ تک ہی نہیں کہ کون سا پرزہ خراب ہے تو وہ کیسے ٹھیک کرے گا انسانی جسم بھی تو ایک مشین ہے اس میں بھی تو پرزے ہیں جب یہ مشین خراب ہوتی ہے تو دراصل کوئی پرزہ ہی تو خراب ہو جاتا ہے اسی طرح شوگر، بلڈپریشر وغیرہ کوئی امراض نہیں بلکہ کسی نہ کسی پرزے کی خرابی کی علامات ہیں۔ اس لئے صحیح اور کامیاب معالج وہی ہوگا جو صرف علامات کی بنیاد پر علاج کرنے کی بجائے اجزائے خون، دوران خون اور افعال الاعضاء کے بگاڑ کو سمجھ کر تشخیص وعلاج کرے گا۔ اس کی ایک دوائی ہی سر سے لے کر پائوں تک کی تکلیف دہ علامات کو ختم کر دے گی۔ انشاء اللہ

تیاری دوا کےاصول قانون براۓ پیاز وشہد والی پوسٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ تیاری دوا کےاصول قانون براۓ پیاز وشہد والی پوسٹ۔۔۔
ایک پوسٹ ۔۔۔۔ قوت باہ کی لازوال دوا ۔۔۔ 2017 دسمبر مین مین نے لکھی تھی اس پوسٹ مین دوا کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ پیاز سفید کاشت کرین اور پیازون مین ایک ایک قطرہ پارہ ڈالنا ھے جب پیاز تیار ھوجائین تو زمین سے نکال کر محفوظ کرلین دوستو اب مختلف کتب مین یہان تک نسخہ درج ھے بلکہ ایک عملیات کی کتاب شمع شبستان ھے اس مین ایک باب دواؤن پہ مشتمل ھے اس مین بھی یہ نسخہ پیاز والا درج ھے اور ان پیازون کوھی کھانے کا طریقہ لکھا ھے کہ خواہ بطور سلاد کھالین یا سالن مین ڈال کر کھالین بس یہی تک سب کتابون مین یہ نسخہ لکھا گیا ھے اس سے آگے اس دوا کی کہین بھی تشریح درج نہین ھے جبکہ مین نے جو نسخہ لکھا تھا اس مین پہلے مرحلہ مین یہ پیاز تیار کرنے تھے پھر ان پیازون سے پانی نکالنا تھا اب اس پانی کے برابروزن شہد شامل کرکے اس پیاز کے پانی کو آنچ دے کر بخارات بناکر اس پانی کواڑا دینا تھا اب اس شہد کو دوچمچ کھانے کا لکھا تھا جوآپ کسی بھی وقت کھاسکتے ھین اب اس سے آگے بھی ایک بات مین نے لکھی تھی کہ اس دوا کایا کلپ یا آب حیات تک لے جایا جاسکتاھے آب حیات یا کایا کلپ سے مراد وہ دوا ھے جس کے استعمال سے انسان زندگی کی آخری سانس تک جوان رھے اور طاقت سے بھرپور رھے مرنا تو خیر سب نے ھی ھے سانس بھی نہین بڑھاۓ جاسکتے یعنی جوزندگی مقرر ھے وہ بھرپور رھے خیر آگے حکماء کو دعوت تھی کہ یہ راستہ یا چابی کہہ لین اس دوا کی ھے جو کایاکلپ ھے 
بس اس سے آگے نسخہ نہین لکھا تھا وھی لکھا تھا جسے ھرکوئی بناسکے بلکہ اسے بھی بنانا ھرایک کے بس کی بات نہین تھی 
شاید مین اس سے آگے بھی اس دوا کی وضاحت کردیتا لیکن اس پوسٹ کے کمنٹس آنے پہ پھر حوصلہ نہین پڑا اور آگے اس دوا کو نہ لکھنے کا دل مین عہد کرلیا مذید محترم سید ادریس گیلانی صاحب منع فرمادیا خیر کافی وجوھات تھین اب اس پہ بحث بھی نہین کرونگا بس آپ کو اس پوسٹ پہ لکھے گئے کمنٹس  کا احوال کچھ بتاۓ دیتا ھون
 983کمنٹس آۓ اس مین لگ بھگ 750 تا800کمنٹس مین یہ لکھا ھے کہ یہ نسخہ شمع شبستان کاھے جبکہ پہلے ھی بتاچکا ھون اس کتاب مین صرف پیازون کا ذکر ھے آگے شہد والی بات کاذکر نہین ھے خیر ھربندے نے بجائے سابقہ کمنٹس پڑھنے کے اپنا مطالعہ لکھنا ضروری جانا 
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌐🌐🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
خیر یہ بحث بند کرتے کرتےھین اب آپکو وہ بات بتاتا ھو جس کےلئے یہ پوسٹ لکھی ھے
اس پوسٹ پہ اتنے کمنٹس آنے کے باوجود علمی سوال ایک بھی نہ تھا اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود دواشخاص نے وضاحت طلب کی جوکچھ علمی تھی یہ وضاحت آج سب کےلئے لکھ رھا ھون 
یاد رکھین دوا بنانا بھی ایک فن ھے اس مین بھی اصول قانون قائدے ھین اس دوا مین جب آپ نے شہد اور پیاز کے پانی کو ملا کر پیاز کاپانی بخارات بناکر اڑانا ھے تو اس کا طریقہ یہ نہین ھے کہ آپ دونون چیزون کو ملا کرسیدھا آگ پہ رکھین اور نیچے زوردار آگ جلائین اور چند ابال آنے پر پیاز کا پانی فشوں کردیاجاۓ ایسا قطعی نہین کرنا بلکہ دس پندرہ کلو ریت لین اسے کسی بڑے تسلے یعنی تغاری مین ڈالین اور آگ پہ رکھ دین جب ریت سرخ ھوجاۓ توآگ بندکردین اوراب اس ریت مین شہداورپیاز ملاپانی کابرتن رکھ دین اس گرم ریت سے شہد اور پیاز گرم ھوکر پیاز والا پانی بھاپ بن کر اڑے گا اب ریت جب ٹھنڈی ھونے لگے تودوبارہ گرم کرین اور شہد رکھ دین یہی عمل جاری رکھین یہان تک کہ سب پانی پیاز والا اڑجاۓ اور شہد باقی رہ جاۓ اس عمل سے نہ ھی شہد کے لطیف اجزاءجلین گے اور نہ ھی پیاز والے پانی مین شامل حرارے ضائع ھونگے اگر آنچ تیز دے دی جاۓ توسب کچھ ضائع ھوجایاکرتاھے امید ھے بات سمجھ آ گئی ھوگی اس کے علاوہ اور کچھ بھی وضاحت نہین کی جاۓ گی

Monday, July 20, 2020

جولائی واگست یعنی ماہ ساون کامزاج وامراض

۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جولائی واگست یعنی ماہ ساون کامزاج وامراض ۔۔۔۔۔۔
جون کا مہینہ گرمی خشکی اپنی آخری منزل پہ آچکا ھوتاھے اور جیسے ھی جولائی شروع ھوتا ھے زمینی حقائق بھی بدلنا شروع ھوجاتے ھین یعنی گرمی تو اپنی جگہ برقرار رھتی ھی ھے لیکن خشکی کی جگہ تری پیدا ھونا شروع ھوجاتی ھے پانی سے ذخائر سے پانی گرم ھوکر بادلون کی صورت مین اور خشک جگہ کوتر کرناشروع کردیتے ھین یعنی اب گرمی کا تعلق خشکی سے ھٹ کرتری سے ھوچکا ھے یہان یہ بات یاد رکھین کہ گرمی ابھی ختم نہین ھوئی اور نہ ھی گرمی اور خشکی ایک وقت مین نہ ھی کائینات مین ختم ھوا کرتی ھین اور نہ ھی بدن کے اندر ختم ھوسکتی ھین یعنی یہ آفاقی عمل ھےتری ھی آگےبڑھتےبڑھتے گرمی کو ختم کرنے کا سبب بنتی ھے کیفیات بدلنے کا یہ قانون ھمیشہ سے پکا لاگو ھے خواہ جہان اکبر یعنی کرہ ارض اور خواہ جہان اصغر یعنی انسانی بدن کے اندر یہی قانون لاگو ھوتاھے یعنی کیفیات اسی ترتیب سے بدل کرامراض اورافراط وتفریط کودرست کرسکتے ھین یہی اصول شفاھے
جولائی اگست کا مزاج گرم تر یعنی غدی اعصابی ھےاس موسم مین درجہ حرارت گرم خشک موسم کی نسبت کافی کم ھوجاتاھے لیکن تپش اس سابقہ موسم سے بھی بڑھ جاتی ھے یعنی گرمی خشکی کے موسم مین توگرمی محض زمین کو تپاتی ھے جبکہ تری کے موسم مین گرم پانی کے بخارات ھرجگہ اپنا اثر چھوڑ رھے ھوتے ھین یاد رکھین جو کیفیت آپ اس وقت بیرون موسم مین دیکھ اور محسوس کررھے ھین بالکل ایسا ھی اسوقت بدن کے اندر ھوتاھے جب گرم خشک تحریک پہ گرم تر دوا دی جاتی ھے اور گرم تر تحریک پیدا کی جاتی ھے گرم تر تحریک کوھم غدی اعصابی کہتے ھین غدی اعصابی تحریک وہ تحریک ھے جب خلط صفرا خون مین انتہاء کوپہنچ جاتی ھے تومفرد فعلی عضوغددجگرفعل مین تیزی سےصفراکوخارج کرکےکم کرناشروع کردیتاھےیعنی اس تحریک گرمی یعنی غدد کا تعلق اعصاب یعنی تری سےقائم ھوجاتاھے اور اب تری یعنی بلغم پیداھوکرصفرامین ملتی اوربڑھتی ھےیہ بدن کی عضوی یامشینی تحریک ھے صفرامشینی طورپرخارج ھورھاھےاوربلغم کیمیاوی طورپرپیداھورھی ھےاسے ھی غددناقلہ کی تحریک کہتے ھین ایسے مین بدن مین گرم تر علامات کاظہور شروع ھوچکاھوتاھےشدت مین ارادی عضلات مین تحلیل وضعف اور حکم رسان اعصاب مین تسکین سےسستی شروع ھوجاتی ھے اب یہ مریض غدی اعصابی کہلاتا ھے یعنی جن ادویہ اوراغذیہ مین گرم تر کیفیت پائی جاتی ھوانہین آپ غدی اعصابی اشیاء کہین گے انہی اشیاء سےھم تحریک پیداکرکےسابقہ تحریک غدی عضلاتی سے نجات حاصل کرلیتے ھین بات توبڑی آسان ھے بس سمجھنا ھی مشکل ھےجو سمجھاتاتوھون لیکن یہ پتہ نہین کس کس کےپلےکچھ پڑاھےخیر آگےچلتےھین
اب کچھ مختصر غدی اعصابی تحریک پیدا ھونے سے کیاکیا امراض پیدا موسمی لحاظ سے ھوتی ھین جس نے پوری تفصیل پڑھنی ھووہ میرا مضمون تشخيص امراض وعلامات پڑھے جس مین سرتاپا تمام امراض کی نبض کی تشریح لکھ دی ھے
خونی پیچش
کانچ نکلنا
عسرالطمث
چنونے
غدی دمہ
صفراوی قے
مروڑاورآؤن آنا
بلڈپریشر
جلد کی سوزش
گرمی دانے
سوزشی دانے
جسم اورپیشاب مین جلن
تقطیرالبول تکلیف سے
بدبودار پسینہ
دردگردہ شدید
خفقان قلب
دم کشی
صفراوی نزلہ
ورم جگر
سرعت انزال
مجاری مین خراش
پاخانہ زیادہ بار تھوڑا تھوڑا آنااور اطمینان پھر بھی نہ ھونا
چھپاکی
انتڑیون کا بخار
صفراوی سیلان
باقی رھی بات حلقہ اثر کی تو دوستو بایان شانہ سے طحال تک اس کا حلقہ اثر ھے جبکہ طحال اس مین شامل نہین ھے اب ان مقامات پہ کہین بھی دردسوزش جلن محسوس ھوتویہ غدی اعصابی تحریک کا کمال ھےمذید یقین تصدیق کےلئے نبض قارورہ سب دیکھاکرین
اب اگلی بات سن لین غدی اعصابی مزاج کےحامل لوگ بڑےھی معتدل طبیعت عقلمند صابر متوازن اعضاء کےمالک بہ فربہی مائل اورپرگوشت چہرہ اور بہادر ھوتے ھین مزاج مین غم وغصہ کاعنصر غالب رھتاھے
ان کی تکالیف مین موسم گرما مین شام5بجے تاغروب آفتاب اور موسم سرمامین شام4تا6بجے تک اضافہ ھوجایاکرتاھے منہ کاذائقہ اورمنہ کی رطوبات کاذائقہ نمکین کھاراساھوتاھے
موسم برسات مین غدی اعصابی مریضون کی مرض مین اضافہ ھوجاتاھے غددجاذبہ یعنی غدی عضلاتی کے مرض کم ھوناشروع ھوجاتے ھین  عضلاتی غدی کافی کم اور عضلاتی غدی مرض تقریبا وقی طورختم ھوجایاکرتی ھیندماغ مین تحریک سے قوت محسوس ھوتی ھےاوراعصابی مریضون کی علامات جاگناشروع ھوجاتی ھین اس موسم مین عضلاتی اور غدی عضلاتی امراض ختم کرنے مین بیرونی ماحول یعنی قدرت آپکا ساتھ دے رھی ھوتی ھے فائدہ اٹھائین
نبض۔۔قدرے دباؤ دینے سے دوسےتین انگلی تک محسوس ھوتی ھے خیر اسکی تفصیل امراض وعلامات وتشخیص کے مضمون مین لکھ چکاھون اجازت دین دعاؤن مین یاد رکھین کل ایک سابقہ پوسٹ جوکہ آجکل گروپ مین اوپر آئی ھوئی ھے یہ پوسٹ شہد اور پیاز کے پانی والی ھےاس کےکچھ نقاط کی تشریح کی جاۓگی محمودبھٹہ گروپ مطب کامل

Sunday, July 19, 2020

پاؤں پہ سوجن اور ورم | Swelling of feet

۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Swelling of feet
۔۔۔۔۔ پاؤں پہ سوجن اور ورم ۔۔۔۔۔۔۔
اس موضوع پہ روزانہ پوسٹین آتی ھین جبکہ اس مرض پہ پہلے بھی لکھ چکا ھون اب ھرشخص علیحدہ علیحدہ انفرادی طور پہ جواب لینا چاھتا ھے اور بار بار ایک ھی مرض کا علیحدہ علیحدہ جواب لکھنا ممکن نہین ھوتا 
پاؤن پہ سوجن عموما دو طرح کی ھوا کرتی ھے 
پہلی وجہ جب دل سے خون نکل کرشریانون کے ذریعے خون پوری رفتار سے دور دراز علاقون یعنی آخری حدود جو پاؤن تک اور ھاتھون کی انگلیون تک جاتی ھے اب یہ خون جاتورھا ھے پوری رفتار سے اور واپسی پہ یہ خون جب وریدون کے ذریعے واپس دل کی طرف آرھا ھوتا ھے تو اس کی رفتار مین کمی آجاۓ تو وریدون کے ذریعے واپس لوٹنے والا خون جب جگر مین کم جارھا ھو تو سمجھ لین وریدی خون مین رکاوٹ اور یہاؤ کی رفتار کا یہ فرق رطوبت خون کو بین الخلیاتی خاؤن مین جمع کردیتا ھے آپ اس کو ورم تہوج کہتے ھین
اب دوسرا پہلو کچھ یون ھے کہ آپ سفر کررھے ھین مسلسل پاؤن لٹکا کربیٹھے ھین یا کسی اور وجہ سے مسلسل ایک ھی جگہ پاؤن لٹکا یا بعض اوقات ویسے ھی بیٹھے رھنے سے پاؤن پہ ورم آجاتا ھے لیکن یہ ورم دائمی یعنی مستقل نہین رھتا کچھ عرصہ یا دیر بعد حرکت سے یہ دور ھوجاتاھے بعض دفعہ مسلسل پیدل چلنے سے بھی یہ عمل ھوجاتاھے 
اب یاد رکھین ھرورم جگر کو درست کرنے کےلئے اس کے خدام کو یعنی غدد ناقلہ وجاذبہ کے افعال کو درست کرنے سے ٹھیک ھوجاتاھے اب یہ کوئی تشویشناک مرض تو نہین ھے لیکن وارننگ ضرور ھے کہ غدی نظام مین خرابی آچکی ھے علاج معالجہ کی صورت مین غدی اعصابی علاج بہترین ھے
غدی اعصابی شدید دبیدالورد عرق زیرہ سفیدکے ھمراہ جوارش غدی اعصابی کھلائین غدی اعصابی ملین دین شدید مرض مین غدی اعصابی مسہل دین 
باقی تمام نسخہ جات باربار گروپ مین لکھ چکا ھون اب کچھ دن پہلے بھی کسی گروپ ممبر نے غدی اعصابی جوارش کا نسخہ پوچھ رکھا تھا لیجئے نسخہ حاضر ھے
سنڈھ ۔ کالی مرچ ۔ زیرہ سفید ۔ اسارون ۔ تخم کاسنی ۔ افتیمون ۔ ھرایک سوگرام اور سناءمکی 500گرام سہ چند شہد یا چینی سے معجون بنالین چمچ دن مین تین بار تک کھلا سکتے ھین 
مذکورہ مرض کےلئے ازحد مفید ھے اور جگر کے دیگر امراض اور گردون کے امراض مین باکمال دوا ھے 
محمودبھٹہ گروپ مطب کاملw