Tuesday, February 26, 2019

تحقیقات جدید طب اور قدیم طب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ تحقیقات جدید طب اور قدیم طب ۔۔۔۔۔۔
آج موسم پھر سے ٹھنڈا ھو گیا ھے کل دوپہر ڈھلے سے بارش شروع ھو کر شام تک رھی اور آج نماز فجر کے بعد موضوع بھی قدیم طب اور جدید سائنس کی تحقیقات کا تقابلی جائزہ لینے سے شروع کیا ھے کبھی کبھی ذھن اس طرف ضرور جاتا ھے کہ کیا جدید تحقیق درست ھے یا قدیم طب کی باتیں ھی درست ھیں درمیان میں قدرت کا بھی خیال ذھن میں رھتا ھے پھر بے شمار سوالات اٹھتے ھیں چلیے آج فیصلہ اس مختصر پوسٹ میں آپ سے کرواتے ھیں جدید سائنس کسی بھی نباتات سے اجزائے مؤثرہ الگ کرکے استعمال میں لے آتی ھے جبکہ قدیم سائنس یا طب اجزائے مؤثرہ الگ نہیں کرتی بلکہ ایک نبات کا مکمل استعمال ھی بہتر خیال کرتی ھے
اب تھوڑا سا تعارف یا تاریخ اجزائے مؤثرہ کے الگ کرنے کے بارے میں بھی آپ کو بتا دوں یاد رھے طب یونانی اور ایلوپیتھی میں اختلاف ادویہ کا ایک سب سے بڑا سبب یہ بھی ھے
یورپ میں اجزائے مؤثرہ کو الگ کرنے کا نظریہ اور طریقہ کار یا کیمسٹری کی بنیاد ڈاکٹر براکلیوس نے ڈالی اب یورپ کی اندھا دھند فریفتگی اس نظریہ Active Ingredients کو جب پیش کیا ۔ اس نظریے نے یورپ کے مادی ذہن کے سامنے تیز رفتاری کے نئے نئے راستے وا کیے درحقیقت سچ یہ تھا طب یونانی کے اطباء اور سائنسدان اس سے بخوبی آگاہ تھے لیکن وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ایک مفرد دوا اپنی اصلی اور قدرتی حالت میں خاص کیفیت پیدا کرتی ھے اب ضروری نہیں کہ اجزائے مؤثرہ بھی ویسی کیفیت پیدا کرسکے
اب جدید کیمسٹری کسی جڑی بوٹی سے جن جن اجزاء کو فضول جان کر خارج کردیتی ھے وہ اکثر حالتوں میں ایک خاص مزاجی کیمیت کا موجب بنتی ھے یا اسی ھی نباتات کے مضر اثرات کو زائل کرنے یا اصلاح کرنے کا سبب بنتے ھیں جیسے بلادر ھے یہ مکمل حالت میں جتنا نفع بخش ھے صدیاں اس کے تجربات اور نفع کی گواہ ھیں ھاں اس کا ایک جزو جسم پہ شدید خارش اور سوزش پیدا کرتا ھے لیکن اس کے اندر ھی دوسرا جزو اسی خارش اور سوزش کا تریاق بھی ھے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ھی پیدا کردیا ھے اور یہ دونوں جزو اس ایک نبات کے اندر ھی رہ کر اس کے نفع کو برقرار رکھتے ھیں اور اس کے مضر اثرات کو بھی زائل رکھتے ھیں بشرطیکہ استعمال کرنے والا طبیب یا سائنسدان اسے مکمل سمجھتا تو ھو اسی طرح ایک اور بوٹی سوما کلپا ھے اسے کھانسی کے شربتوں میں ایلوپیتھی بہت زیادہ استعمال کرتی ھے یاد رھے کچھ عرصہ پہلے شاید آپ کو یاد آجائے ایک بہت بڑا وبال موت کی صورت میں اسی بوٹی کے ایک جوھر کی وجہ سے سامنے آیا تھا اب بات آگے بڑھاتے ھیں تو بات آپ کو سمجھ آجائے گی
سوما کلپا بوٹی سے ایلوپیتھی دو اجزائے مؤثرہ الگ الگ کرکے اپنے استعمال میں لاتی ھے جو کھانسی کے شربتوں میں ایلوپیتھی استعمال کرتی ھے اس میں ایک کا نام ایفیڈرین اور دوسرے کا نام سوڈو ایفیڈرین ھے خود ایلوپیتھی کہتی ھے کہ یہ دونوں اجزاء مؤثرہ بلڈ پریشر بڑھاتے ھیں لیکن اگر سوما کلپا کو اصل حالت میں بطور جوشاندہ استعمال کیا جائے تو کسی صورت بلڈ پریشر نہیں بڑھتا اب کیون نہیں بڑھتا اس کی وجہ بھی بیان کرتا ھوں اسی جڑی بوٹی سوما کلپا سے سائنسدانوں نے ایک تیسرا جزو مؤثرہ بھی الگ کیا ھے جس کا نام ایفی ڈی نین سے منسوب کیا گیا ھے اب اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ھے کہ یہ بلڈ پریشر کم کرتی ھے یعنی قدرت نے جو ایک سالم بوٹی سوما کلپا بنائی تو اس میں خاصیت کھانسی کو درست کرنے کی رکھی تو یہ کھانسی دور کرنی والے اجزاء بلڈ پریشر بڑھاتے کا بھی کام کرتے ھیں تو قدرت نے اس کا بھی سدباب کیا یعنی اس کے اندر بلڈ پریشر نارمل رکھنے کا یعنی مضر اثرات نہ ھونے دینے کا بھی جزو ساتھ رکھ کر ایک مکمل علاج کے لئے ایک نبات کو پیدا کردیا یعنی ایک مکمل مفردات قدرت کاملہ ھوئی جبکہ آپ نے جب بھی الگ کیا نقصانات ساتھ ھی لے آئے اب آپ فیصلہ کریں درست کون ھے؟
دوستو بے شمار مثالیں دی جا سکتی ھیں اب جانتے ھیں کہ جو کچھ فطرت میں ھوتا ھے اس کا مقابلہ مصنوعی حسن پیدا کرکے نہیں کیا جا سکتا

No comments:

Post a Comment