Tuesday, June 4, 2019

تشخیص امراض وعلامات-97

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔تشخیص امراض وعلامات ۔۔۔۔۔قسط 97۔۔۔۔۔
چند اقساط مین کچھ مرضون کی تشریحات کرکے مضمون ختم کردیا جاۓ گا میرے خیال مین اس پہ کافی وضاحت کردی گئی ھے اگر کسی نے سچی لگن سے مکمل مضمون اپنے دماغ مین بٹھا لیا تو مجھے امید ھے کبھی زندگی مین اسے امراض کی تشخیص مین پریشانی نہین آئے گی
آج ھمارا موضوع بلڈ پریشر ھے بلڈ پریشر کے بارے مین بہت سے لوگون کو بےشمار غلط فہمیان ھین سچ یہ ھے کہ وہ بلڈ پریشر کو بالکل جانتے ھی نہین ھین جتنا وہ جانتے ھین اتنا ایک عام بندہ بھی جانتا ھے جیسے جب بھی لفظ بلڈ پریشر سامنے آۓ گا تو فورا دوخیال دل مین جاتے ھین پہلا خیال بندہ دل کا مریض ھے دوسرا خیال بڑھ چکا ھوگا ایک تیسرا خیال جو کہ بہت خوفناک ھے وہ بھی آتا ھے لیکن نام کوئی نہین لیتا وہ خیال ھے موت کا کہ اب بندہ بچے گا نہین ؟
یہ خیال کیون آتا ھے ؟ اس لئے کہ کبھی کسی نے بلڈ پریشر کا مریض کبھی ٹھیک ھوتے دیکھا نہین ۔۔ھان وقتی طور پر کنٹرول کیا جاسکتا ھے لیکن مستقل طور پر درست ھونا اکثر ناممکن سمجھا جاتا ھے ایسا کیون ھے اس سوال( کیون )کےآگے جواب نہین ھے بلکہ خاموشی ھے آئیے آج ھم اسی نقطہ کو سامنے رکھ کر بلڈ پریشر کی وضاحت کرتے ھین
اس کی وضاحت اس لئے بھی ضروری ھے کہ مین نے کسی بھی طبیب کی جب بھی دوا کی لکھی پوسٹ دیکھی ھے تو دو کمنٹس لازمی طور آتے ھین اگر دوا مین ذرا بھی مٹھاس شامل ھے تو ھر کوئی ایک کمنٹس کرنا اپنا فرض سمجھتا ھے کہ شوگر والا مریض کیا اسے کھا سکتا ھے یا پھر کچھ یون تحریر لکھی ھوگی کہ شوگر والا کدھر جائے اب ان دونون سوالون کا جواب بھی نہایت ھی آسان ھے پہلا جواب شوگر والا اس دوا کو نہ کھائے باقی بےشمار دوائین کھاتا رھے دوسرا جواب کہین بھی نہ جائے بلکہ خوشی خوشی اپنے گھر رھے اللہ تعالی اسے صحت دے اور اپنے گھر مین حفظ وامان مین رھے اسی طرح ھر دوا پہ یہ کمنٹس بھی لازما آتا ھے کہ کیا بلڈ پریشروالا یہ دوا کھا سکتا ھے اب صاحب پوسٹ کو بھی علم نہین ھوتا بس وہ الٹے سیدھے جواب لکھ کے مطمئن کرتا رھتا ھے آج کی پوسٹ مین اسی دونون سوالون پہ بات کرین گے اب پہلی بات۔۔۔
دل کی دو فعلی حالتین ھوتی ھین
ایک حالت کو ھم انقباضی حالت کہتے ھین جسے ایلوپیتھی Systolic کہتی ھے یعنی جب دل سکڑ کر خون کو پورے بدن کی سیرابی کےلئے شریانون کی طرف دھکیتا ھے تو اس کے بہاؤ سے شریانوں کی دیوارون کی مزاحمت سے خون کا دباؤ بھی بڑھتا ھے یعنی خون کا دباؤ جب شریانون پر پڑتا ھے تو یہ سسٹولک کہلاتا ھے اور یہ اوپر والا بلڈ پریشر ھوتا ھے
اب ایک بات کی وضاحت یہان درمیان مین ھی کردون جو نالیان دل سے خون لے جاتی ھین اب جب خون کی واپسی ھوتی ھے یعنی واپس دل کی طرف آتا ھے تو ان ھی نالیون سے واپس نہین آتا بلکہ خون واپس دل کی طرف لانے کے لئے اللہ تعالی نے الگ سے نالیان بنا رکھی ھین اس ساری بات کی تشریح اس لئے بھی کررھا ھون کہ اگر اوپر والا بلڈ پریشر بڑھ رھا ھے تو سمجھ لین کہ خرابی یا تو ان نالیون مین ھے جو دل سے خون لے جارھی ھین یا پھر ان کے متعلقہ نظام مین خرابی ھے یعنی سکیڑ کے عمل مین ھے یعنی پورے بدن مین جہان جہان بھی ایسے نظام ھین جو اپنا عمل انبساط اور انقباظ کے تحت کرتے ھین اب ان مین کہین بھی نقص آگیا ھے اب ایک بات اور بھی یاد رکھین جو نالیان دل سے خون لے جاتی ھین انہین شریان کہتے ھین اور جو نالیان واپس خون دل کی طرف لاتی ھین انہین وریدین کہتے ھین
اب آگےبات کرتے ھین یعنی دوسری حالت جسے انبساطی حالت کہتے ھین یعنی نیچےوالا بلڈ پریشروہ ھےکہ جب خون واپس بذریعہ وریددل کی طرف لوٹتا ھےتووریدون کادباؤجوخون پرپڑتاھےاسےنیچےوالا بلڈپریشریعنی ڈایاسٹولکDiastolicکہتے ھین
یہ خون کا پریشرناپنے کا مخصوص پیمانہ ھے جو مختلف اوقات مین عمروحالات کےتحت بڑھتاگھٹتا رھتا ھےعام حالت مین نیچےاوراوپروالےدباؤیعنی پریشرمین40درجےکافرق ھوتا ھے
اب ایک اوروضاحت اوپروالےبلڈپریشرکاتعلق عضلات سےھوتا ھے اور نیچے والے کا تعلق غدد سے ھوتا ھے یعنی جو بات مین نے پہلے بھی کہی ھے اب اسی کی مذید وضاحت کررھا ھون کہ پورے بدن مین کہین بھی عضلات مین سکیڑ ھوگا یا تنگی ھوگی تو اوپر والا بلڈ پریشر بڑھ جائے گا خواہ یہ سکیڑ شریانون مین ھی پڑ گیا ھے جس کی وجہ سے شریانین تنگ ھوگئی ھین یا پھر بدن کےکسی بھی مقام پہ عضلات مین شدیدسکیڑھوگیاھے تب بھی یہ اوپر والا بلڈ پریشر بڑھ جائے گا یہان ایک بات اور بھی یادکر لین کبھی اپنے اندرونی تعلق کی وجہ سے ساتھ نیچے والا بلڈ پریشر بھی بڑھ جاتا ھے لیکن ایسا ھوتا کم ھی ھے یہ عموما مرض کی شدت یا مرض بہت پرانی ھوچکی ھو تب یہ بڑھتا ھے
اب اگلی بات کرتےھین پورےبدن مین کہین بھی غددوغشامین سکیڑ وضیق پیداگا تو نچلے والا بلڈ پریشر بڑھ جاۓگاباقی آئیندہ

No comments:

Post a Comment