Sunday, January 13, 2019

تشخيص امراض وعلامات 72

۔۔۔۔۔۔مطب کامل ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔قسط نمبر 72۔۔
یاد رکھین پیشاب کے ان ھی اجزاء کی کمی بیشی سے ایلوپیتھی ھیوموپیتھی اور مروجہ یونانی طریقہ علاج مین مختلف مرضون کے نام انہی اجزا کی بنیاد پہ رکھے گئے ھین مثلا
اگر آپ کو پیشاب مین البیومن یا پروٹین کی موجودگی نظر آئی تو البیومینوریا یا پروٹینوریا اور اگر شکر نظر آئی تو گلائی کوسوریا اور اگر RBCنظر آئے تو ھیمے ٹوریا کہا جاتا ھے گلائی کوسوریا یعنی ذیابیطس کو کس طرح مرض کا درجہ ملا ھوا ھے یہ آپ سب کو علم ھے اور کوئی کچھ جانے نہ جانے شوگر کو ضرور جانتا ھے
لیکن یہ سب جاننے کے لئے آپ کو کیمیکل کا سہارا لینا پڑے گا کبھی ایلوپیتھی بھی کافی مسائل کا شکار ھوا کرتی تھی یہی شوگر چیک کرنے کے لئے ٹیوب مین بینی ڈکٹ سلیوشن ڈال کر اس مین چند قطرے پیشاب ڈال کر سپرٹ لیمپ پہ ابالنا پڑتا تھا لیب ٹیکنیشن کا دماغ بھی معطر ھوتا اور رزلٹ بھی پیشاب کا رنگ بدلنے پہ ملتا تھا رنگ ھلکا پیلا گہرا پیلا اور سرخی مائل اور گہرا سرخ ھوجانے پہ لکھا جاتا تھا آج تو بڑی آسانیان ھو گئی ھین انگلی پہ نیڈل لگی تھوڑا خون نکالا اور سٹک پہ لگایا جو میٹر مین لگا دی جاتی ھے رزلٹ میٹر پہ لکھا آجاتا ھے اب بہت سے ٹیسٹ صرف کٹس سے ھی کیے جاتے ھین جو پہلے اچھی خاصی مصیبت لگتے تھے
لیکن حکماء کرام نے ایسی کوئی کوشش نہین کی پیشاب کا ٹیسٹ صرف نظری معائینہ کی حد تک ھی رکھا یقین جانین وہ نظری معائینہ اتنا گہرا تھا کہ حیرت گم ھو جاتی تھی درست مرض صرف قارورہ دیکھ کر ھی بتادیا کرتے تھے یہ سب مین نے اپنی آنکھون سے دیکھا ھے اور بارھا دیکھا ھے یہ میرے چچا تھے حکیم محمد صادق بھٹہ ؒ اور ان سے نبض سیکھی جو لوگ منڈی بہاوالدین سے تعلق رکھتے ھین وہ انہین خوب اچھی طرح جانتے ھین کافی عرصہ پہلے وفات پا چکے ھین یہان میرا موضوع داستانین لکھنا نہین ھے ورنہ بے شمار واقعات قارورہ کی تشخيص پہ آنکھون دیکھے لکھ سکتا ھون دوستو یہ سب کچھ مسلسل مشاھدہ قارورہ کا کمال تھا خیر مین بات کررھا تھا نظری معائینہ اور جدید مشینون سے سہارا لے کر قارورہ کا معائینہ کرکے امراض کی تشخيص کرنا دوستو دونون بحثین ساتھ ساتھ چلین گی
نظری معائینہ سے رنگ ۔۔ بو ۔۔ اور تلچھٹ دیکھی جاتی ھے لیکن ایلوپیتھی مین یہ سب کچھ دیکھنے کے علاوہ بھی کیمیائی تجزیے کیے جاتے ھین اگر پیشاب مین معیاری پیمانہ سے مطابقت نہ پائی جاۓ تو مختلف بیماریون کی نشاندھی کی جاتی ھے ( معیاری پیمانہ مین چند اقساط پہلے لکھ چکا ھون )
مثلا کن بیماریون کی نشادھی ھوتی ھے
اگر پیشاب مین البیومن آرھی ھے تو اسے گردون کا ورم سمجھا جاتا ھے
اگر شکر خارج ھو رھی ھے تو اسے ذیا بیطس شکری مرض تشخيص کرتے ھین
ان دونو صورتون مین پیشاب کا مخصوصہ وزن (1.030)کے قریب ھوجاتا ھے
صفراوی رنگ (بائل پگمنٹ )اور صفراوی نمک بلی روبن اگر پیشاب مین پایا جاۓ تو یرقان کی تصدیق ھوتی ھے
اگر خورد بین کے نیچے پیشاب کا معائینہ کرتے وقت پیپ یعنی پس کے سیلز نظر آجائین تو گردے مثانے یا پھر پیشاب کی نالی مین ورم ھو سکتا ھے
اگر خون کے ذرے RBCملین تو گردے یا مثانے کی پتھری کی تصدیق ھوتی ھے جو زخم کرکے خون کے اخراج کا باعث بن رھی ھے یا پھر گردون کی سوزش یعنی نیفرائیٹس یا ان اعضاء مین کینسر ھو سکتا ھے
اگر مختلف نمکیات کی قلمین یا ریت حد اعتدال سے زائد ھو تو یہ مستقبل مین پتھری بننے کا امکان ھے اب ان کے کرسٹلز کی شکل اور ان کی قسم سے بھی ھم بیمار عضو کے بارے مین جان سکتے ھین
پیشاب کی پی ایچ یا ری ایکشن سے اس کے کھاری پن یا تیزابی پن کا پتہ چل سکتا ھے
سفید (WBC ) سیلز 5--6سے زائد ھون تو بول کے اعضاء کی انفیکشن ھے
کیٹون باڈیز یعنی ایسی ڈوسز پیشاب مین اس وقت بڑھتی ھے جب ذیابطس شکری کا مریض نشاستہ دار غذائین بالکل استعمال نہ کررھا ھو یا اسے ھضم ھی نہ ھو رھی ھون یا پھر سانس مین خرابی ھو اور ان کے عضلات مین فالج ھو جاۓ
اب تو پیشاب کے ٹیسٹ کرنا بالکل ھی آسان ھو گیا ھے بےشمار ٹیسٹ صرف سٹرپس پہ ھوتے ھین اب وہ مقامات جہان ٹیسٹون کی سہولیات میسر نہین ھین وھان یہ ٹیسٹ خود بھی کیے جا سکتے ھین بازار سے ان کی سٹکس عام مل جایا کرتی ھین جیسے شوگر کے لئے گلوکوسٹکس ڈایا سٹکس یا اور دیگر نامون سے ملین گی جن سے شوگر کا پتہ کیا جا سکتا ھے پروٹین کے لئے ایلبوسٹکس یا کچھ نامون سے بھی ملتی ھین بلی روبن کے لئے اکٹو ٹیسٹ پی ایچ کے لئے کمبی سٹکس ایس جی اور صرف پی ایچ معلوم کرنا ھو تو پی ایچ سکیل سے پتہ چل سکتا ھے ملٹی سٹکس ایس جی کیٹون باڈیز اور پریگنینسی سٹک سے حمل کا پتہ چلتا ھے یہ مثالاً کچھ نام لکھ دیے ھین نہایت سستی ھوتی ھین دیگر کئی نامون سے بے شمار ٹیسٹون کی سٹکس مارکیٹ مین ملتی ھین باقی مضمون آئیندہ

No comments:

Post a Comment